/ Thursday, 13 March,2025


کہ ذکرِ حبیب اِس طرح کا بجا ہے





کہ ذکرِ حبیب اِس طرح کا بجا ہے
مریضِ طلب کو طبیبِ دوا ہے

تعجب ہے کہ ایماں کی مدعی سے
کہ غافل رہے وہ درود نبی سے

درودِ مبارک عجب نورِ جاں ہے
کلیدِ درِ برکتِ بے کراں ہے

بدرگاہِ شاہنشہِ دین و دنیا
کسی نے کیا آ کے معروض ایسا

کہ میں وقت اپنے تمامی مقرر
کروں بہرِ صلواتِ خوانی مقرر

کیا اس کو ارشاد خیر الورا نے
حبیبِ خدا خاتمِ انبیا نے

کہ گر اس عمل کا تو عامل ہوا ہے
سبھی حلِ مشکل کو اکتفا ہے

کہ یعنی درودِ مبارک کی کثرت
مہمات سے بخشتی ہے فراغت

یہاں اور قولِ جنابِ علی﷜ ہے
کلامِ علی ابنِ عمِّ نبی ہے

سنو حاصلِ قولِ شیرِ خدا کا
علیِ ولی نائبِ مصطفیٰ کا

کہ جو کیفیت ہے بذکرِ الٰہی
نہ اس لطف کی دوسری چیز پائی

جو بالفرض اس ذکر سے مطلبِ دل
نہ ہوتا ہمیں جو کہ ہوتا ہے حاصل

تو اس کے عوض ہم تمامی عبادت
سمجھتے درودِ مبارک کی کثرت

غرض یہ کہ اس کا عوض اور بدلا
جو ہوتا درودِ مبارک ہے ہوتا

جو ہیں سالکانِ طریقِ ولایت
تو اُن کے لیے ہے یہ راہِ ہدایت

کہ اس کو فتوحِ عظیمہ سمجھ کر
زباں کو کریں معدنِ قند و شکر

مشائخ نے کی کیا ہی تقریرِ کامل
کہ ہوئے میسر نہ گر پیرِ کامل

تو اس وقت وردِ درودِ مبارک
مریدوں کو پیرِ طریقت ہیں بے شک

یہ ہے واسطہ اس طرح کا مکمل
کہ ہے طالبِ حق کو اک شیخ حاصل

مشایخ سے منقول یہ بھی ہوا ہے
کہ رتبہ عجب قُلْ ھُوَ اللہُ کا ہے

کہ اس کی قراءت سے جانا اَحَد کو
ہے پہچانا اللہ واحد صمد کو

ہوا اور یہ بھی مشائخ سے مروی
کہ تاثیرِ وردِ درود ایسی پائی

عجب اس کی کثرت نے جلوہ دکھایا
ہوئی باریابِ حضورِ معلا

ملی سرورِ انبیا کی حضوری
تمنّائے دل ہوگئی اس کی پوری

کہا ہے یہ شیخِ علی متقی نے
طبیبِ مریضانِ دردِ دلی نے

کہ صلوات کی جو کہ کثرت کرے گا
وہ حضرت نبی کی زیارت کرے گا

اُسے خواب میں ہو میسر یہ دولت
کہ ملتی ہے سوتے میں اکثر یہ دولت

وہ یا بخت بیدار ہو جس کسی کا
وہ بیداری میں چشم سے دیکھ لے گا

وہ حکمِ کبیر اک کتابِ سند ہے
وہاں ہے بہ تحقیق یہ مسئلہ طے

لکھا اور یہ عبدِ حق دہلوی نے
کہ وہ عبدِ وہاب جو متقی تھے

کیا ایسا ارشاد اس مقتدا نے
محبِّ جنابِ حبیبِ خدا نے

کہ وقتِ درود و سلام، اے عزیزو!
عجب بحر رحمت میں تم تیرتے ہو

کہا جب کہ اللہم زباِں سے
تو دیکھو کہاں تک گئی اس بیاں سے

وہ دریائے رحمت جو اللہ کے ہیں
بحارِ کرم اس شہنشاہ کے ہیں

وہاں مثلِ غواص غوطہ لگائے
دُر و گوہرِ بے بہا ہاتھ آئے

کہا جب کہ اللہم زباِں سے
تو آئے بہ بحرِ رسالت پناہی

تمہیں لے گئی موجِ دریائے رحمت
لگے ہاتھ کیا کیا گہرہائے رحمت

کہا جب کہ صَلِّ عَلٰٓی اٰلِ اَحْمَد
تو آئی بدریائی اَفضالِ احمد

شمولِ صحابہ کیا جب یہاں پر
ہوئی بحر لطف و کرم کی شناور

غرض ایسے ایسے بحارِ عطا سے
نہ جاؤ گے مایوس تشنہ، پیاسے

کہ یاں ہر طرف مرحمت موج زن ہے
وہ ہر موج کوہِ معاصی شکن ہے

یہ رحمت کا قلزم جہاں جوش مارے
اساسِ گنہ بیخ و بن سے اُکھاڑے

ہمیں تو یقیں بل کہ حق الیقیں ہے
کہ جو واصفِ سیّد المرسلیں ہے

نہ دیکھے گا وہ عسرتِ دین و دنیا
روا اُس کی ہو حاجتِ دین و دنیا

مشایخ جو ہیں شاذلی خانداں کے
مشرف اُنھوں نے کیا اس بیاں سے

کہ پیرِ طریقت نہ ہو گر میسّر
تو کیجے درودِ مبارک کو رہبر

یہ اس طرح کا مرشِدِ پُر ضیا ہے
کہ طالب کے باطن کو دیتا جِلا ہے

درودِ نبی کا یہ ہے فیضِ کامل
نظر جس سے آتی ہے عرفاں کی منزل

بلا واسطہ سرورِ انبیا سے
مشرف وہ کرتا ہے نورِ ہدا سے

فیوضِ جنابِ نبیِ مکرم
دکھاتا ہے وردِ درودِ معظّم

محیطِ کراماتِ دریائے عرفاں
کہ ہیں عبدِ قادر وہ محبوبِ سبحاں

جنابِ سیادت نسب غوثِ اعظم
سپہرِ ولایت کے قطبِ مکرّم

بہارِ ریاضِ امامِ حسن ہیں
وہ سرمستِ صہبائے جامِ حسن ہیں

سپہدارِ میدانِ شیرِ الٰہی
سزاوارِ ایوانِ مشکل کشائی

وہ ہیں قطبِ افراد دور زماں کے
وہ غوثِ معظّم ہیں فریاد خواں کے

جہاں بہرہ ور اُن کے دستِ کرم سے
قوی پشت ہیں اولیا اس قدم سے

طریقہ یہ ہے آپ کے خانداں کا
کہ وہ خانداں فخر ہے سب جہاں کا

کہ جس نے کیا وردِ صلوات حاصل
عجب اُس کو حاصل ہوا فضلِ کامل

کہ بے واسطہ خاتمِ مرسلاں سے
مشرف ہوا نعمتِ جاوداں سے

سخاوت محدّث بڑا نامور ہے
کیا اُس نے اس نقل کو مشتہر ہے

سوا اُس کے بھی اور اہلِ خبر نے
لکھا راویانِ خجستہ سِیَر نے

کہ اک شخص تھا نام اُس کا محمد
وہ کرتا تھا اس کام میں کوشش و کد

معین درود اُس نے کچھ کر رکھا تھا
کہ ہنگامِ خفتن وہ تھا اُس کو پڑھتا

غرض ایک شب اُس نے پائی زیارت
جنابِ رسولِ خدا کی زیارت

وہ سوتے میں ناگاہ کیا دیکھتا ہے
کہ گھر میرا پُر نور روشن ہوا ہے

مِرے گھر میں ہیں آپ تشریف لائے
عجب شوکت و شانِ رحمت سے آئے

فروغ جمالِ مبارک سے اُس دم
ہوا میرے گھر میں تجلی کا عالَم

یہاں مدح خواں کب خموشی کی جا ہے
مقامِ سراپائے خیرالورا ہے