/ Friday, 14 March,2025


فقیرانہ شاہی





تختِ زریں نہ تاجِ شاہی ہے

کیا فقیرانہ بادشاہی ہے

 

فقر پر شان یہ کہ زیرِ نگیں

ماہ سے لے کے تا بماہی ہے

 

روئے انور کے سامنے سورج

جیسے اک شمعِ صبح گاہی ہے

 

سایۂ ذات کیوں نظر آئے

نور ہی نور ہے ضیا ہی ہے

 

رِیت آقا کی چھوڑ دی ہم نے

اپنی مہمان اب تباہی ہے

 

اک نگاہِ کرم سے مٹ جائے

دل پہ اخترؔ کے جو سیاہی ہے

٭…٭…٭