فرماتے ہیں ’تحفہ‘ میں معالی
ہیں ابن حضور پاک(۱) راوی
فرماتے ہیں ابن مصطفی(۲) یہ
بچپن کا ہے میرے ماجرا یہ
طفلی میں جو چاہتا کبھی جی
اطفال میں ہوں شریک بازی
دیتا کوئی غیب سے یکایک
آواز اِلَیَّ یَا مُبَارَک (۳)
سن کر یہ صدا جو خوف آتا
میں گود میں والدہ کی جاتا
تھی پہلے جو یہ صداے عشرت
سنتا ہوں اب اُس کو وقتِ خلوت
کچھ تو نے سنا حسنؔ یہ کیا تھا
یہ کون اُنہیں بلا رہا تھا
ہاں کیوں نہ ہوں وہ کمال محبوب
اللہ کو ہے جمالِ محبوب
کیوں کر ہو ثناے خوب رویاں
قربان اَداے خوب رویاں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) شیخ عبدالرزاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ۲۱ منہ
(۲) مراد است از ذات پاک حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ۔۲۱منہ
(۳) یعنی اے میرے مالک! میری طرف آ۔
جیلاں میں طلب کے ساتھ یہ کد
معراج میں اُدْنُ یَا مُحَمَّدْ
مژدہ ہو تجھے مرے دل زار
تو بھی ہے انہیں کا کفش بردار
کیا ظلمتِ گور اُسے دبائے
قسمت سے جو ایسے چاند پائے
پردے سے یہ کس نے منہ نکالا
پھیلا ہے جہان میں اُجالا
ہر لُمعہ صباے مہ سے بہتر
ہر جلوہ ہزار مہر دربر
لو آؤ سیاہ نامے والو
دل سے غمِ تیرگی نکالو
ہے روزِ سیاہ کا دل سے غم دُور
تاریکیِ قبر کا اَلم دُور
یاں ضعف سے جس کو چکر آیا
آنکھوں کے تلے نہ تھا اندھیرا
جب دُور ہو یاں سے کالے کوسوں
پھر شاکیِ بختِ تیرہ کیا ہوں
اس کو نہ کہو قمر کا جلوہ
کیا جلوہ وہ رات بھر کا جلوہ
یہ شمع نہیں جو جھلملائے
خورشید نہیں جو ڈوب جائے
کب ہے یہ تجلّیِ کواکب
شب بھر ہے تعلّیِ کواکب
دن رات جو ایک سا عیاں ہے
یہ جلوۂ حسن گل رُخاں ہے
ہر وقت چمک رہے ہیں اَنوار
ہر شے میں جھلک رہے ہیں انوار
اُٹھ جاتی ہیں جس طرف نگاہیں
روشن ہیں تجلّیوں سے راہیں
دل محوِ جمال جلوۂ طور
یا پیش نگاہِ سورۂ نور
وسائلِ بخشش