/ Friday, 14 March,2025


فوج غم کی برابر چڑھائی ہے





شربت دید میری دوائی ہے

فوج غم کی برابر چڑھائی ہے
دافع غم تمہاری دہائی ہے

عمر کھیلوں میں ہم نے گنوائی ہے
عمر بھر کی یہی تو کمائی ہے

تم نے کب بات کوئی نہ برائی ہے
تم سے جو آرزو کی برآئی ہے

تم سے ہر دم امید بھلائی ہے
میٹ دیجے جو ہم میں برائی ہے

تم نے کب آنکھ ہم کو دکھائ ہے
تم نے کب آنکھ ہم سے پھرائ ہے

تم کو عالم کا مالک کیا اس نے
جس کی مملوک ساری خدائی ہے

کس کے قبضے میں ہیں یہ زمین و زماں
کس کے قبضے میں پیارے خدائی ہے

تو خدا کا ہوا اور خدا تیرا
تیرے قبضے میں ساری خدائی ہے

جب خدا خود تمہارا ہوا تو پھر
کون سی چیز ہے جو پرائی ہے

سب صفات خدا کے ہو تم مظہر
ایک قابو سے باہر خدائی ہے

تاج رکھا ترے سر رَفَعْنَا کا
کس قدر تیری عزت بڑھائی ہے

انبیا کو رسائی ملی تم تک
بس تمہاری خدا تک رسائی ہے

از زمیں تا فلک جن و انس و ملک
جس کو دیکھو تمہارا فدائی ہے

رشک سلطان ہے وہ گدا جس نے
تیرے کوچہ میں دھونی رمائی ہے

میری تقدیر کر دو بھلی تم نے
قدرت محو و اثبات پائی ہے

میرا بیڑا کنارے لگے پیارے
نوح کی ناؤ کس نے ترائی ہے

آگ کو باغ کس نے کیا پیارے
تم نے، تم نے ہی قدرت یہ پائی ہے

میرے دل کی لگی بھی بجھا دیجے
نار نمرود کس نے بجھائی ہے

شرر افشانیاں کس کی ہیں عشق کی
آگ سینے میں جس نے لگائی ہے

کاش وہ حشر کے دن کہیں مجھ سے
نار دوزخ سے تجھ کو رہائی ہے

خوشبوئے زلف سے کوچے مہک ہیں
کیسے پھولوں میں شاہا بسائی ہے

پیارے خوشبو تمہارے پسینے کی
خلد کے پھولوں سے بھی سوائی ہے

بات وہ عطر فردوس میں بھی نہیں
تیرے ملبوس نے جو سنگھائی ہے

اس رضا پر ہو مولیٰ رضائے حق
راہ جس نے تمہاری جلائی ہے

ناخدا باخدا آؤ بہر خدا
میری کشتی تباہی میں آئی ہے

ہیں یہ صدمے تری ہی فرقت کے
روز افزوں یہ درد جدائی ہے

طیبہ جاؤں وہاں سے نہ واپس آؤں
میرے جی میں تو اب یہ سمائی ہے

مر رہا ہوں تم آجاؤ جی اٹھوں
شربت دید میری دوائی ہے

شوق دیدار نوری میں اے نوریؔ
روح کھنچ کر اب آنکھوں میں آئی ہے

سامانِ بخشش