فوج غم کی برابر چڑھائی ہے
دافع غم تمہاری دہائی ہے
عمر کھیلوں میں ہم نے گنوائی ہے
عمر بھر کی یہی تو کمائی ہے
تم نے کب بات کوئی نہ برائی ہے
تم سے جو آرزو کی برآئی ہے
تم سے ہر دم امید بھلائی ہے
میٹ دیجے جو ہم میں برائی ہے
تم نے کب آنکھ ہم کو دکھائ ہے
تم نے کب آنکھ ہم سے پھرائ ہے
تم کو عالم کا مالک کیا اس نے
جس کی مملوک ساری خدائی ہے
کس کے قبضے میں ہیں یہ زمین و زماں
کس کے قبضے میں پیارے خدائی ہے
تو خدا کا ہوا اور خدا تیرا
تیرے قبضے میں ساری خدائی ہے
جب خدا خود تمہارا ہوا تو پھر
کون سی چیز ہے جو پرائی ہے
سب صفات خدا کے ہو تم مظہر
ایک قابو سے باہر خدائی ہے
تاج رکھا ترے سر رَفَعْنَا کا
کس قدر تیری عزت بڑھائی ہے
انبیا کو رسائی ملی تم تک
بس تمہاری خدا تک رسائی ہے
از زمیں تا فلک جن و انس و ملک
جس کو دیکھو تمہارا فدائی ہے
رشک سلطان ہے وہ گدا جس نے
تیرے کوچہ میں دھونی رمائی ہے
میری تقدیر کر دو بھلی تم نے
قدرت محو و اثبات پائی ہے
میرا بیڑا کنارے لگے پیارے
نوح کی ناؤ کس نے ترائی ہے
آگ کو باغ کس نے کیا پیارے
تم نے، تم نے ہی قدرت یہ پائی ہے
میرے دل کی لگی بھی بجھا دیجے
نار نمرود کس نے بجھائی ہے
شرر افشانیاں کس کی ہیں عشق کی
آگ سینے میں جس نے لگائی ہے
کاش وہ حشر کے دن کہیں مجھ سے
نار دوزخ سے تجھ کو رہائی ہے
خوشبوئے زلف سے کوچے مہک ہیں
کیسے پھولوں میں شاہا بسائی ہے
پیارے خوشبو تمہارے پسینے کی
خلد کے پھولوں سے بھی سوائی ہے
بات وہ عطر فردوس میں بھی نہیں
تیرے ملبوس نے جو سنگھائی ہے
اس رضا پر ہو مولیٰ رضائے حق
راہ جس نے تمہاری جلائی ہے
ناخدا باخدا آؤ بہر خدا
میری کشتی تباہی میں آئی ہے
ہیں یہ صدمے تری ہی فرقت کے
روز افزوں یہ درد جدائی ہے
طیبہ جاؤں وہاں سے نہ واپس آؤں
میرے جی میں تو اب یہ سمائی ہے
مر رہا ہوں تم آجاؤ جی اٹھوں
شربت دید میری دوائی ہے
شوق دیدار نوری میں اے نوریؔ
روح کھنچ کر اب آنکھوں میں آئی ہے
سامانِ بخشش