صبح آزادی
غم کے مارو لو مسرت کا پیام آہی گیا
آفتاب حریت بالام بام آہی گیا
ہو مبارک یہ سرور و انبساط زندگی
میکشو! ہونٹوں تک آزادی کا جام آہی گیا
برق نے تو لاکھ چاہا تھا کہ رستہ روک دیں
آسمانِ حریت پر میرا گام آہی گیا
اب شبستانِ وطن کی ظلمتیں کا فور ہیں
آسماں پر نیر گردوں خرام آہی گیا
آج اپنے ہاتھ میں اپنے وطن کی ہے زمام
نالۂ مظلوم آخر کار کام آہی گیا
ذلتِ محکومیت سے ہم کو چھٹکارا ملا
اپنے ہاتھ اپنے گلستاں کا نظام آہی گیا
لو نسیم صبح گاہی لائی پیغام نشید
مرحبا وقت وداع وقت شام آہی گیا
منھ کی کھانا پڑگیا افرنگیوں کی چال کو
خود شکاری آج اخؔتر زیر دام آہی گیا
۲۶ جنوری ۱۹۵۷ء (مبارکپور اعظم گڑھ)