/ Thursday, 13 March,2025


غم طمانیت وتسکین میں ڈھل جاتے ہیں





غم طمانیت وتسکین میں ڈھل جاتے ہیں

جب کرم ہوتا ہے حالات بدل جاتے ہیں

 

اُن کی رحمت ہے خطا پوش گنہ گاروں کی

کھوٹے سکے سر بازار بھی چل جاتے ہیں

 

اِسم احمد کا وظیفہ ہے ہر اک غم کا علاج

لاکھ خطرے ہوں اسی نام سے ٹل جاتے ہیں

 

آپ کے ذکر سے اک کیف ملا کرتا ہے

اور جتنے بھی ہیں اسرار وہ کھل جاتے ہیں

 

اپنی آغوش میں لے لیتا ہے جب ان کا کرم

زندگی کے سبھی انداز بدل جاتے ہیں

 

عشق کی آنچ سے دل کیوں نہ بنے گا کعبہ

عشق کی آنچ سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

 

رکھ ہی لیتے ہیں بھرم ان کے کرم کے صدقے

جب کسی بات پہ دیوانے مچل جاتے ہیں

 

دم نکل جائے تیری یاد میں پھر ہم بھی کہیں

للہ الحمد لئے حُسنِ عمل جاتے ہیں

 

آپڑے ہیں ترے قدموں میں یہ سن کر ہم بھی

جو ترے قدموں پہ گرتے ہیں سنبھل جاتے ہیں

 

امتِ احمدِ مختار نہیں ہوسکتے

اور ہیں اور جہنم میں جو جل جاتے ہیں،

 

مطمئن ہوں گے مگر دیکھ کے جلوہ ان کا

ہم نہیں وہ جو کھلونوں سے بہل جاتے ہیں

 

آپ کو کعبہِ مقصود ہی مانو خاؔلد

آپ کے در پہ سب ارمان نکل جاتے ہیں

 

یاد اُن کی بدل اُن کا نہیں ہونے پاتی

ہجر کے شام وسحر پیار میں کھل جاتے ہیں