گل بوستان نبی غوث اعظم
مہ آسمان علی غوث اعظم
جسے چاہے کردے عطا سر بلندی
ملی ہے تجھے خسردی غوث اعظم
ولی ہوگیا وہ اشارے سے تیرے
سدا جس نے کی رہزنی غوث اعظم
بڑھا ہاتھ تیری طرف مفلسوں کا
نظر تیری جانب اٹھی غوث اعظم
ولی بن گئے دم میں فساق ورہزن
نظر تیری جب پڑگئی غوث اعظم
دلی قطب و ابدال و اوتا دوکامل
کریں تجھ سے کیا، ہمسری غوث اعظم
تو وہ گل ہے باغ حسین و حسن کا
کہ بو تیری سب میں بسی غوث اعظم
قدم کیوں نہ لیں اولیا چشم و سر پر
کہ ہیں والی ہر ولی غوث اعظم
خدا تک نہ کیوں کر ہوا اس کی رسائی
کرے جس کی تو رہبری غوث اعظم
تو ہے شیخ کل اور سب تیرے چیلے
ترے زیر پار ہر ولی غوث اعظم
ولایت کا ہے ملک زیر حکومت
ملی تجھ کو شاہنشہی غوث اعظم
ولایت کرامت کو ہے ناز جن پر
وہ تجھ سے ہوئے ملتجی غوث اعظم
ملے ہیں ترے جدا مجد سے تجھ کو
علوم خفی و جلی غوث اعظم
تمہیں سب ہے معلوم تم پر ہے روشن
ہوئی ہے جو حالت مری غوث اعظم
ہزاروں الم سر پہ اور میں اکیلا
مری دیکھ لو بے بسی غوث اعظم
ہے بگڑی ہوئی آج کل میری قسمت
تو چاہے تو سنبھلے ابھی غوث اعظم
بدلدے تو اچھی سے اچھے کا صدقہ
جو ہے مجھ میں خصلت بری غوث اعظم
اشارے سے تیری نگاہ کرم کے
ہزاروں کی بگڑی بنی غوث اعظم
مری جھولیاں بھی مرادوں سے بھر دے
سخی ہے تو ابن سخی غوث اعظم
پھرے در بدر کیوں بھکاری بھٹکتا
ترے گھر میں ہے کیا کمی غوث اعظم
تو خون شہداں کے صدقے میں دھودے
ہوئی مجھ سے جو کچھ بدی غوث اعظم
لگا دے سہارا مدد کر خدارا
تلاطم میں کشتی پھنسی غوث اعظم
ہو سرسبز شاداب باغِ تمنا
رہے شاخ دل کی ہری غوث اعظم
طفیل پیمبر یہی مدعا ہے
کہ ہو سرنگوں مدعیٰ غوث اعظم
اگر تیری امداد آئے مدد کو
مقدر کی نکلے کجی غوث اعظم
ترے ذکر میں عیش و عزت سے گزرے
جو باقی ہے کچھ زندگی غوث اعظم
خدا کے لیے ایسا بے خود بنادے
کہ مٹ جائے ساری خودی غوث اعظم
مرے مولا آجاؤ دل میں کہ نکلے
جو ہے دل میں حسر ت بھری غوث اعظم
میں سمجھوں کہ اب جان میں جان آئی
جو آئیں دم جانکنی غوث اعظم
ہوں ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت
یہی عرض ہے آخری غوث اعظم
سنالا تخف تیرا فرمان عالی
غلاموں کی ڈھارس بندھی غوث اعظم
قیامت کے دن ہوں گے تیری بدولت
ترے نام لیوا بری غوث اعظم
سیہ کارکی قبر میں ہے اندھیرا
تو آجا کہ ہو چاندنی غوث اعظم
ذرا کھول دے اپنا نورانی چہرہ
کہ مٹ جائے سب تیرگی غوث اعظم
اگر بہرِ امداد دل سے پکاریں
ہوں تشریف فرما ابھی غوث اعظم
جو لڑکی تھی قبضے میں ویو لعیں کے
ترے نام سے وہ بچی غوث اعظم
صبا دست بستہ سلام عرض کرنا
جو ملجائیں تجھ کو کبھی غوث اعظم
جمیل اپنی جھولی کو پھیلا بھریں گے
کہ داتا ہیں تیرے سخی غوث اعظم
قبالۂ بخشش