/ Friday, 14 March,2025


گلوں کی خوشبو





وہی تبسم وہی ترنم وہی نزاکت وہی لطافت

وہی ہیں دزدیدہ سی نگاہیں کہ جن سے شوخی ٹپک رہی ہے

گلوں کی خوشبو مہک رہی ہے دلوں کی کلیاں چٹک رہی ہیں

نگاہیں اٹھ اٹھ کے جھک رہی ہیں کہ ایک بجلی چمک رہی ہے

یہ مجھ کو کہتی ہے دل کی دھڑکن کہ دستِ ساقی سے جام لے لو

وہ دور ساغر کا چل رہا ہے شرابِ رنگیں چھلک رہی ہے

یہ میں نے مانا حسین و دلکش سماں یہ مستی بھرا ہے لیکن

خوشی میں حائل ہے فکر فردا مجھے یہ مستی کھٹک رہی ہے

نہ جانے کتنے فریب کھائے ہیں راہِ الفت میں ہم نے اخترؔ

پر اپنی مت کو بھی کیا کریں ہم فریب کھا کر بہک رہی ہے

٭…٭…٭