/ Thursday, 13 March,2025


حدائق بخشش   (122)





نہ عرش ایمن نہ اِنِّیْ ذَاہِبٌ میں میہمانی ہے

نہ عرش ایمن نہ اِنِّیْ ذَاہِبٌ میں میہمانی ہے نہ لطفِ اُدْنُ یَا اَحْمَدْ نصیبِ لَنْ تَراَنِیْ ہے نصیبِ دوستاں گر اُن کے دَر پر مَوت آنی ہے خدا یوں ہی کرے پھر تو ہمیشہ زندگانی ہے اُسی در پر تڑپتے ہیں مچلتے ہیں بلکتے ہیں اٹھا جاتا نہیں کیا خوب اپنی ناتوانی ہے ہر اِک دیوار و در پر مہر نے کی ہے جبیں سائی نگارِ مسجدِ اقدس میں کب سونے کا پانی ہے تِرے منگتا کی خاموشی شفاعت خواہ ہے اُس کی زبانِ بے زبانی ترجمانِ خستہ جانی ہے کھلے کیا رازِ محبوب و محب مستانِ غفلت پر شرابِ قَدْرَأَی الْحَقّ زیبِ جامِ مَنْ رَّاٰنِیْ ہے جہاں کی خاکروبی نے چمن آرا کیا تجھ کو صبا ہم نے بھی اُن گلیوں کی کچھ دن خاک چھانی ہے شہا کیا ذات تیری حق نما ہے فردِ امکاں میں کہ تجھ سے کوئی اوّل ہے نہ تیرا کوئی ثانی ہے کہاں اس کو شکِ جانِ جناں میں زَر کی نقّاشی اِرم کے طائرِ رنگِ پریدہ کی نشانی ہے ذِیَابٌ فِی ثِیَابٍ لب پہ کل۔۔۔

مزید

سنتے ہیں کہ محشر میں صرف ان کی رسائی ہے

سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے مچلا ہے کہ رحمت نے امّید بندھائی ہے کیا بات تِری مجرم کیا بات بنائی ہے سب نے صفِ محشر للکار دیا ہم کواے بے کسوں کے آقا! اب تیری دہائی ہے یوں تو سب اُنھیں کا ہے پر دل کی اگر پوچھو یہ ٹوٹے ہوئے دل ہی خاص اُن کی کمائی ہے زائر گئے بھی کب کے دن ڈھلنےپہ ہے پیارے اٹھ میرے اکیلے چل کیا دیر لگائی ہے بازارِ عمل میں تو سودا نہ بنا اپنا سرکارِ کرم تجھ میں عیبی کی سمائی ہے گرتے ہووں کو مژدہ سجدے میں گرے مولیٰرو رو کے شفاعت کی تمہید اٹھائی ہے اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اٹھدم گھٹنے لگا ظالم کیا دھونی رَمائی ہے مجرم کو نہ شرماؤ اَحباب کفن ڈھک دومنھ دیکھ کے کیا ہوگا پردے میں بھلائی ہے اب آپی سنبھالیں تو کام اپنے سنبھل جائیں ہم نے تو کمائی سب کھیلوں میں گنوائی ہے اے عشق تِرے صدقے جلنے سےچُھٹے سستے جو آگ بجھا دے گی و۔۔۔

مزید

حرزِ جاں ذکر شفاعت کیجئے

حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجیےنار سے بچنے کی صورت کیجیے اُن کے نقشِ پا پہ غیرت کیجیے آنکھ سے چھپ کر زیارت کیجیے اُن کے حُسنِ با ملاحت پر نثار شیرۂ جاں کی حلاوت کیجیے اُن کے در پر جیسے ہو مٹ جائیے ناتوانو! کچھ تو ہمّت کیجیے پھیر دیجے پنجۂ دیوِ لعیں مصطفیٰ کے بل پہ طاقت کیجیے ڈوب کر یادِ لبِ شاداب میں آبِ کوثر کی سباحت کیجیے یادِ قامت کرتے اٹھیے قبر سے جانِ محشر پر قیامت کیجیے اُن کے در پر بیٹھیے بن کر فقیر بے نواؤ! فکرِ ثروت کیجیے جس کا حُسن اللہ کو بھی بھا گیا ایسے پیارے سے محبّت کیجیے حَیِّ باقی جس کی کرتا ہے ثنامرتے دم تک اس کی مدحت کیجیے عرش پر جس کی کمانیں چڑھ گئیںصدقے اُس بازو پہ قوّت کیجیے نیم وا طیبہ کے پھولوں پر ہو آنکھ بلبلو! پاسِ نزاکت کیجیے سر سے گرتا ہے ابھی بارِ گناہ خم ذرا فرقِ ارادت کیجیے آنکھ تو اٹھتی نہیں کیا دیں جواب ہم پہ بے پُرسش ہی رحمت کیجیے عذر بد تر از گنہ کا ذکر ک۔۔۔

مزید

دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیے

دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیےملحدوں کی کیا مروّت کیجیے ذکر اُن کا چھیڑیے ہر بات میں چھیڑنا شیطاں کا عادت کیجیے مثلِ فارس زلزلے ہوں نجد میں ذکرِ آیاتِ ولادت کیجیے غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دل ’’یَا رَسُوْلَ اللہ‘‘ کی کثرت کیجیے کیجیے چرچا اُنھیں کا صبح و شام جانِ کافر پر قیامت کیجیے آپ درگاہِ خُدا میں ہیں وجیہ ہاں شفاعت بالوجاہت کیجیے حق تمھیں فرما چکا اپنا حبیب اب شفاعت بالمحبّت کیجیے اِذن کب کا مل چکا اب تو حضور ہم غریبوں کی شفاعت کیجیے ملحدوں کا شک نکل جائے حضور جانبِ مہ پھر اشارت کیجیے شرک ٹھہرے جس میں تعظیم ِحبیب اُس بُرے مذہب پہ لعنت کیجیے ظالمو! محبوب کا حق تھا یہی عشق کے بدلے عداوت کیجیے وَالضُّحٰی، حُجْرَاتْ، اَلَمْ نَشْرَحْ سے پھر مومنو! اتمامِ حجّت کیجیے بیٹھتے اٹھتے حضورِ پاک سے التجا و استعانت کیجیے یا رسول اللہ دُہائی آپ کیگوشمالِ اہلِ بدعت کیجیے۔۔۔

مزید

شکرِ خدا کے آج گھڑی اُس سفر کی ہے

شکرِ خدا کے آج گھڑی اُس سفر کی ہے جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے نا شکر! یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے کس خاکِ پاک کی تو بنی خاکِ پا شفاتجھ کو قسم جنابِ مسیحا کے سر کی ہے آبِ حیاتِ روح ہے زرقا کی بوند بوند اکسیرِ اعظمِ مسِ دل خاکِ در کی ہے ہم کو تو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سُنا کیے ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضر کی ہے وہ دیکھو جگمگاتی ہے شب اور قمر ابھیپہروں نہیں کہ بست و چہارم صفر کی ہے ماہِ مدینہ اپنی تجلّی عطا کرے!یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے مَنْ زَارَ تُرْبَتِیْ وَجَبَتْ لَہ شَفَاعَتِیْ اُن پر دُرود جن سے نوید اِن بُشَر کی ہے اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دیے اصلِ مُراد حاضری اس پاک در ہے کعبے کا نام تک نہ لیا طیبہ ہی کہا پوچھا تھا ہم سے جس نے کہ نہضت کدھر کی ہے کعبہ ب۔۔۔

مزید

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا کو یہ عظمت کس سفر کی ہے ہم گردِ کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے کالک جبیں کی سجدۂ در سے چھڑاؤ گےمجھ کو بھی لے چلو یہ تمنّا حجر کی ہے ڈوبا ہوا ہے شوق میں زمزم اور آنکھ سے جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے برسا کہ جانے والوں پہ گوہر کروں نثارابرِ کرم سے عرض یہ میزابِ زر کی ہے آغوشِ شوق کھولے ہے جن کے لیے حطیم وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دُھن کدھر کی ہے ہاں ہاں رہِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگاو پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے جانِ لویہ راہِ جاں فزا مِرے مولیٰ کے در کی۔۔۔

مزید

اَلَآ یٰٓاَیُّھَاالسَّاقِیْٓ اَدِرْ کَاسًا وَّنَاوِلْھَا

اَلَآ یٰٓاَیُّھَاالسَّاقِیْٓ اَدِرْ کَاسًا وَّنَاوِلْھَاکہ بر یادِ شہِ کوثر بنا سازیم محفلہا بلا بارید حُبِّ شیخِ نجدی بر وہابیّہکہ عشق آساں نمود اوّل ولے افتاد مشکلہا وہابی گرچہ اخفا می کند بغضِ نبی لیکن نہاں کے ماند آں رازے کزو سازند محفلہا توہّب گاہ ملکِ ہند اقامت را نمی شاید جرس فریاد می دارد کہ بر بندید محملہا صلائے مجلسم در گوش آمد بیں بیا بشنوجرس مستانہ می گوید کہ بر بندید محملہا مگر داں رُو ازیں محفل رہِ اربابِ سنّت رَوکہ سالک بے خبر نبود زِ راہ و رسم منزلہا در ایں جلوت بیا از راہِ خلوت تا خُدا یابیمَتٰی مَاتَلْقَ مَنْ تَھْوٰی دَعِ الدُّنْیَا وَاَمْھِلْھَا دلم قربانت اے دودِ چراغِ محفلِ مولدز تاب جعدِ مشکینت چہ خوں افتاد در دلہا غریقِ بحرِ عشقِ احمدیم از فرحتِ مولد کجا دانند حالِ ما سُبکسارانِ ساحلہا رضؔاءِ مستِ جامِ عشقِ ساغر باز می خواہد اَلَآ یٰٓاَیُّھَاالسَّاقِیْ اَ۔۔۔

مزید

صبح طیبہ میں ہوئی

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کاصدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا بارھویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کابارہ برجوں سے جھکا ایک اِک ستارہ نور کا ان کے قصرِ قدر سے خلد ایک کمرہ نور کا سدرہ پائیں باغ میں ننھا سا پودا نور کا عرش بھی فردوس بھی اس شاہ والا نور کایہ مُثمّن بُرج وہ مشکوئے اعلیٰ نور کا آئی بدعت چھائی ظلمت رنگ بدلا نور کاماہِ سنّت مہرِ طلعت لے لے بدلا نور کا تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نور کا بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا نور دن دونا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا تیری ہی جانب ہے پانچوں وقت سجدہ نور کا رُخ ہے قبلہ نور کا ابرو ہے کعبہ نور کا پشت پر ڈھلکا سرِ انور سے شملہ نور کا دیکھیں موسیٰ طور سے اُترا صحیفہ نور کا تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کاسر جھک۔۔۔

مزید

اُمّتان و سیاہ کاریہا

اُمّتان و سیاہ کاریہا شافعِ حشر و غم گساریہا دور از کوئے صاحبِ کوثر چشم دارد چہ اشکباریہا در فراقِ تو یا رسولَ اللہ!سینہ دارد چہ بے قراریہا ظلمت آبادِ گورِ روشن شدداغِ دل راست نور باریہا چہ کند نفس پردہ در مولیٰ چوں توئی گرمِ پردہ داریہا سگِ کوئے نبی و یک نگہےمن و تا حشر جاں نثاریہا سَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ تَرْضٰیحق نمودت چہ پاس داریہا دارم اے گل بیادِ زلف و رختسحر و شام آہ و زاریہا تازہ لطفِ تو بر رضؔا ہر دممرہمِ کہنہ دل فگاریہا حدائقِ بخشش ۔۔۔

مزید

تِرا ذرّہ مہِ کامل ہے یا غوث

تِرا ذرّہ مہِ کامل ہے یا غوثتِرا قطرہ یمِ سائل ہے یا غوث کوئی سالک ہے یا واصل ہے یا غوث وہ کچھ بھی ہو تِرا سائل ہے یا غوث قدِ بے سایہ ظِلِّ کبریا ہے تو اُس بے سایہ ظل کا ظل ہے یا غوث تِری جاگیر میں ہے شرق تا غربقلمر و میں حرم تا حل ہے یا غوث دلِ عشق و رخِ حُسن آئینہ ہیںاور ان دونوں میں تیرا ظل ہے یا غوث تِری شمعِ دل آرا کی تب و تابگُل و بلبل کی آب و گِل ہے یا غوث تِرا مجنوں تِرا صحرا تِرا نجدتِری لیلیٰ تِرا محمل ہے یا غوث یہ تیری چمپئ رنگت حسینی حَسن کے چاند صبحِ دل ہے یا غوث گلستاں زار تیری پنکھڑی ہے کلی سو خلد کا حاصل ہے یا غوث اگال اس کا ادھار ابرار کا ہوجسے تیرا اُلش حاصل ہے یا غوث اشارے میں کیا جس نے قمر چاکتو اس مہ کا مہِ کامل ہے یا غوث جسے عرشِ دوم کہتے ہیں اَفلاک وہ تیری کرسیِ منزل ہے یا غوث جسے مانگے نہ پائیں جاہ والے وہ بن مانگے تجھے حاصل ہے یا غوث فیوضِ عالمِ اُمّ۔۔۔

مزید

جو تیرا طفل ہے کامل ہے یا غوث

جو تیرا طفل ہے کامل ہے یا غوثطُفیلی کا لقب واصل ہے یا غوث تصوّف تیرے مکتب کا سبق ہے تَصرّف پر تِرا عامل ہے یا غوث تِری سَیرِ اِلَی اللہ ہی ہے فِی اللہکہ گھر سے چلتے ہی مُوصل ہے یا غوث تو نورِ اوّل و آخر ہے مولیٰتو خیرِ عاجل و آجل ہے یا غوث ملک کے کچھ بشر کچھ جن کے ہیں پیر تو شیخِ عالی و سافل ہے یا غوث کتابِ ہر دل آثارِ تَعرّفتِرے دفتر ہی سے ناقل ہے یا غوث فُتُوْحُ الْغَیْب اگر روشن نہ فرمائےفُتُوْحَات و فُصُوْص آفل ہے یا غوث تِرا منسوب ہے مرفوع اس جااضافت رفع کی عامل ہے یا غوث تِرے کامی مشقّت سے بَری ہیں کہ بر تر نصب سے فاعل ہے یا غوث اَحَد سے احمد اور احمد سے تجھ کو کُنْ اور سب کُنْ مَکُنْ حاصل ہے یاغوث تِری عزّت، تِری رفعت، تِرا فضلبِفَضْلِہٖ افضل و فاضل ہے یا غوث تِرے جلوے کے آگے منطقہ سے مہ و خور پر خطِ باطل ہے یا غوث سیاہی مائل اس کی چاندنی آئیقمر کا یوں فلک مائل ہے یا۔۔۔

مزید

بدل یا فرد جو کامل ہے یا غوث

بدل یا فرد جو کامل ہے یا غوثتِرے ہی در سے مستکمل ہے یا غوث جو تیری یاد سے ذاہل یا غوث وہ ذکر اللہ سے غافل ہے یا غوث اَنَا السَّیَّاف سے جاہل ہے یا غوث جو تیرے فضل پر صائل ہے یا غوث سخن ہیں اصفیا، تو مغزِ معنیٰ بدن ہیں اولیا، تو دل ہے یا غوث اگر وہ جسمِ عرفاں ہیں تو تو آنکھاگر وہ آنکھ ہیں تو تل ہے یا غوث اُلوہیّت نبوّت کے سوا تو تمام افضال کا قابل ہے یا غوث نبی کے قدموں پر ہے جز نبوّت کہ ختم اس راہ میں حائل ہے یا غوث اُلوہیّت ہی احمد نے نہ پائینبوّت ہی سے تو عاطل ہے یا غوث صحابیّت ہوئی پھر تابعیت بس آگے قادری منزل ہے یا غوث ہزاروں تابعی سے تو فزوں ہےوہ طبقہ مجملاً فاضل ہے یا غوث رہا میدان و شہرستان عرفانتِرا رَمنا تِری محفل ہے یا غوث یہ چشتی، سہروردی، نقشبندیہر اک تیری طرف مائل ہے یا غوث تِری چڑیاں ہیں تیرا دانہ پانیتِرا میلہ تِری محفل ہے یا غوث انھیں تو قادری بیعت ہے تجدید وہ۔۔۔

مزید