جمعہ , 14 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Friday, 05 December,2025


منقبت   (235)





نبی کے نور سے پیر و مریدِ با صفا چمکے

نبی کے نور سے پیر و مریدِ با صفا چمکےبریلی میں رضا چمکے، مدینے میں ضیا چمکے ضیا کا فیض پہنچا ناگپور، ارضِ مدینہ سےضیا کے فیض سے عبد الحلیمِ با صفا چمکے ضیاءُ الدین کے عرسِ مبارک کی تجلّی سےخدا وندا قیامت تک عمریا کی فضا چمکے ضیاءُ الدین کا بابِ کرم ہے کتنا نورانیزبانِ التجا کھولوں تو حرفِ التجا چمکے شریعت اور طریقت کی مُقدّس رہ گزاروں میںجب ان کا نقشِ پا چمکا تو لاکھوں رہ نما چمکے مدینے کے قطب کی ذات اسمِ با مسمّٰی ہےضیاءُ الدین بن کر دین و ملّت کی ضیا چمکے یہ بس دن بھر چمکتا ہے ہمیشہ تم چمکتے ہوتمھارے سامنے سورج اگر چمکے تو کیا چکے چمک اٹھا مُقدّر پیر زادہ فضلِ رحمٰں کاضیا کے جانشیں بن کر مثالِ آئینہ چمکے یہاں اعجاز ہر دم نور کی خیرات بٹتی ہےمدینے کی گلی میں جو بھی آئے وہ گدا چمکے۔۔۔

مزید

منقبتِ حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی

سنت کے حامی سنو میں لکھتا ہوں اسمائے سامیجو تشریف لاکر ہوئے دیں کے حامی محدّث مفسّر فقیہوں میں نامی!وصی احمد اُن کا ہے اسمِ گرامی ہے تحدیث کی اُن پہ بے شک تمامیشب و روز رہتے ہیں سنّت کے حامی وہ تدریس میں فی زمانہ ہیں یکتاوہ افتاء میں رکھتے نہیں مثل اپنا ہے گرچہ کمال اُن کو ہر عمل و فن پرمگر ہیں احادیث پر جان سے شیدا شب و روز کرتے ہیں دیں کی حمایتمٹاتے ہیں دنیا سے شرک و ضلالت فیوض اُن کے جاری رہیں تا قیامترہیں وہ زمانے میں باصد کرامت بڑھے عمر اُن کی رہیں وہ سلامتملے حشر میں عزّ و قرب و ریاست وسیلے سے تیرے نبیﷺ کے الٰہی!دُعا ہوئے مقبول اس پرگنہ کی!   (محدث سورتی،انجمن ضیاء طیبہ)   ۔۔۔

مزید

خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا

خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیراکبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا مئے سر جوش در آغوش ہے شیشہ تیرابے خودی چھائے نہ کیوں پی کے پیالہ تیرا خفتگانِ شبِ غفلت کو جگا دیتا ہےسالہا سال وہ راتوں کا نہ سونا تیرا ہے تری ذات عجب بحرِ حقیقت پیارےکسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا جورِ پامالیِ عالم سے اُسے کیا مطلبخاک میں مل نہیں سکتا کبھی ذرّہ تیرا کس قدر جوشِ تحیّر کے عیاں ہیں آثارنظر آیا مگر آئینے کو تلوا تیرا گلشن ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈےواہ اے ابرِ کرم زورِ برسنا تیرا کیا مہک ہے کہ معطر ہے دماغِ عالمتختۂ گلشنِ فردوس ہے روضہ تیرا تیرے ذرّہ پہ معاصی کی گھٹا چھائی ہےاس طرف بھی کبھی اے مہر ہو جلوہ تیرا تجھ میں ہیں تربیتِ خضر کے پیدا آثاربحر و بَر میں ہمیں ملتا ہے سہارا تیرا پھر مجھے اپنا درِ پاک دکھا دے پیارےآنکھیں پرُ نور ہوں پھر دیکھ کے جلوہ تیرا ظِلّ حق غوث پہ، ہے غوث کا سایہ تجھ پرسا۔۔۔

مزید

غازی مَلک ممتاز حُسین قادری کے سانحۂ شہادت پرنظمِ جذبات

 غازی مَلک ممتاز حُسین قادری  کے سانحۂ شہادت پرنظم                                                            (تاریخِ شہادت: پیر، صبح چار بجے، ۲۰، جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۹، فروری ۲۰۱۶ء۔  بمقام: اَڈیالہ جیل، راولپنڈی)  نتیجۂ فکر: ندیم احمد نؔدیم نورانی   گستاخ پر تھا حملہ ممتاز قادری کا وہ عشقِ مصطفیٰ تھا ممتاز قادری کا ہم کو یقین ہے یہ رب کو پسند ہے وہعشقِ نبی کا جذبہ ممتاز قادری کا عشّاقِ مصطفیٰ میں ممتاز ہو گیا وہ‘‘ممتاز’’ نام حق تھا ممتاز قادری کا بے شک بہادری اور جرأت کا تھا وہ پیکر‘‘غازی’’ لقب تھا سچا ممتاز قادری کا پھانسی کی شکل میں اُس نے پائی ہے ش۔۔۔

مزید

مختصر منظوم تعارف حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد منظور احمد فیضی

﷽ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِo مختصر منظوم تعارف شیخ الحدیث والتفسیر مُناظرِ اہلِ سنّت بیہقیِ وقت حضرت علّامہ مولانا مفتیمحمد منظور احمد فیضی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ   (تاریخِ وصال: یکم جمادی الآخرہ ۱۴۲۷ھ مطابق ۲۷؍ جون۲۰۰۶ء) کلام: ندیم احمد نؔدیم نورانی مہتابِ علم و حکمت ہیں مفتی منظور احمد فیضی اَفلاکِ عمل کی رفعت ہیں مفتی منظور احمد فیضی جو الٰہی بخش کے پوتے ہیں، علّامہ ظریف کے بیٹے ہیں وہ وارثِ علمی شرافت ہیں مفتی منظور احمد فیضی بستی فیض آباد اوچ بہاول پور میں آپ ہوئے پیدا ماں باپ کے دل کی راحت ہیں مفتی منظور احمد فیضی تاریخِ ولادت دو رمضاں تیرہ سو اٹّھاون ہجری رمضان کا فیضِ برکت ہیں مفتی منظور احمد فیضی جب فیض محمد شاہ جمالی خواجہ سے بیعت ہیں وہ تو صاحبِ فیضِ ولایت ہیں مفتی منظور احمد فیضی تھے سیّد احمد کاظمی اور مسعود علی اُستاد اُن کے پھر کیوں نہ ک۔۔۔

مزید

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیقِ اکبر کا

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کاہے یارِ غار محبوبِ خدا صدیق اکبر کا الٰہی رحم فرما خادمِ صدیق اکبر ہوںتری رحمت کے صدقے واسطہ صدیق اکبر کا رُسل اور انبیا کے بعد جو افضل ہو عالم سےیہ عالم میں ہے کس کا مرتبہ صدیق اکبر کا گدا صدیق اکبر کا خدا سے فضل پاتا ہےخدا کے فضل سے میں ہوں گدا صدیق اکبر کا نبی کا اور خدا کا مدح گو صدیق اکبر ہےنبی صدیق اکبر کا خدا صدیق اکبر کا ضیا میں مہر عالم تاب کا یوں نام کب ہوتانہ ہوتا نام گر وجہِ ضیا صدیق اکبر کا ضعیفی میں یہ قوت ہے ضعیفوں کو قوی کر دیںسَہارا لیں ضعیف و اَقویا صدیق اکبر کا خدا اِکرام فرماتا ہے اَتْقٰی کہہ کے قرآں میںکریں پھر کیوں نہ اِکرام اتقیا صدیق اکبر کا صفا وہ کچھ ملی خاک سرِ کوئے پیمبر سےمصَفّا آئینہ ہے نقشِ پا صدیق اکبر کا ہوئے فاروق و عثمان و علی جب داخلِ بیعتبنا فخر سلاسِل سلسلہ صدیق اکبر کا مقامِ خوابِ راحت چین سے آرام کر۔۔۔

مزید

نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا

نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم ساملا تقدیر سے حاجت روا فاروقِ اعظم سا ترا رشتہ بنا شیرازۂ جمعیتِ خاطرپڑا تھا دفترِ دینِ کتابُ اﷲ برہم سا مراد آئی مرادیں ملنے کی پیاری گھڑی آئیملا حاجت رَوا ہم کو درِ سلطانِ عالم سا ترے جود و کرم کا کوئی اندازہ کرے کیوں کرترا اِک اِک گدا فیض و سخاوت میں ہے حاتم سا خدارا مہر کر اے ذرّہ پرور مہر نورانیسیہ بختی سے ہے روزِ سیہ میرا شبِِ غم سا تمہارے دَر سے جھولی بھر مرادیں لے کے اُٹھیں گےنہ کوئی بادشاہ تم سا نہ کوئی بے نوا ہم سا فدا اے اُمّ کلثوم آپ کی تقدیر یاوَر کےعلی بابا ہوا ، دُولھا ہوا فاروق اکرم سا غضب میں دشمنوں کی جان ہے تیغِ سر افگن سےخروج و رفض کے گھر میں نہ کیوں برپا ہو ماتم سا شیاطیں مضمحل ہیں تیرے نامِ پاک کے ڈر سےنکل جائے نہ کیوں رفّاض بد اَطوار کا دم سا منائیں عید جو ذی الحجہ میں تیری شہادت کیالٰہی روز و ماہ و سن اُنھیں گزرے۔۔۔

مزید

اللہ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کا

اﷲ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کامحبوبِ خدا یار ہے عثمانِ غنی کا رنگین وہ رُخسار ہے عثمان غنی کابلبل گل گلزار ہے عثمان غنی کا گرمی پہ یہ بازار ہے عثمانِ غنی کااﷲ خریدار ہے عثمانِ غنی کا کیا لعل شکر بار ہے عثمانِ غنی کاقند ایک نمک خوار ہے عثمانِ غنی کا سرکار عطا پاش ہے عثمانِ غنی کادربار دُرر بار ہے عثمانِ غنی کا دل سوختو ہمت جگر اب ہوتے ہیں ٹھنڈےوہ سایۂ دیوار ہے عثمانِ غنی کا جو دل کو ضیا دے جو مقدر کو جلا دےوہ جلوۂ دیدار ہے عثمانِ غنی کا جس آئینہ میں نورِ الٰہی نظر آئےوہ آئینہ رُخسار ہے عثمانِ غنی کا سرکار سے پائیں گے مرادوں پہ مرادیںدربار یہ دُر بار ہے عثمانِ غنی کا آزاد، گرفتارِ بلاے دو جہاں ہےآزاد، گرفتار ہے عثمانِ غنی کا بیمار ہے جس کو نہیں آزارِ محبتاچھا ہے جو بیمار ہے عثمانِ غنی کا اﷲ غنی حد نہیں اِنعام و عطا کیوہ فیض پہ دربار ہے عثمانِ غنی کا رُک جائیں مرے کام حسن۔۔۔

مزید

اے حب وطن ساتھ نہ یوں سوئے نجف جا

اے حبِّ وطن ساتھ نہ یوں سوے نجف جاہم اور طرف جاتے ہیں تو اور طرف جا چل ہند سے چل ہند سے چل ہند سے غافل !اُٹھ سوے نجف سوے نجف سوے نجف جا پھنستا ہے وبالوں میں عبث اخترِ طالعسرکار سے پائے گا شرف بہر شرف جا آنکھوں کو بھی محروم نہ رکھ حُسنِ ضیا سےکی دل میں اگر اے مہِ بے داغ و کلف جا اے کُلفتِ غم بندۂ مولیٰ سے نہ رکھ کامبے فائدہ ہوتی ہے تری عمر تلف جا اے طلعتِ شہ آ تجھے مولیٰ کی قسم آاے ظلمتِ دل جا تجھے اُس رُخ کا حَلف جَا ہو جلوہ فزا صاحبِ قوسین کا نائبہاں تیرِ دعا بہرِ خدا سُوے ہدف جا کیوں غرقِ اَلم ہے دُرِ مقصود سے منہ بھرنیسانِ کرم کی طرف اے تشنہ صدف جا جیلاں کے شرف حضرتِ مولیٰ کے خلف ہیںاے نا خلف اُٹھ جانبِ تعظیمِ خلف جا تفضیل کا جویا نہ ہو مولیٰ کی وِلا میںیوں چھوڑ کے گوہر کو نہ تو بہر خذف جا مولیٰ کی امامت سے محبت ہے تو غافلاَربابِ جماعت کی نہ تو چھوڑ کے صف جا کہہ دے کوئی ۔۔۔

مزید

باغِ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت

باغ‘جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیتتم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلِ بیت کس زباں سے ہو بیانِ عز و شانِ اہلِ بیتمدح گوے مصطفیٰ ہے مدح خوانِ اہلِ بیت اُن کی پاکی کا خداے پاک کرتا ہے بیاںآیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت مصطفےٰ عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیںہے بلند اقبال تیرا دُودمانِ اہلِ بیت اُن کے گھر میں بے اجازت جبرئیل آتے نہیںقدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت مصطفےٰ بائع خریدار اُس کا اللہ اشتریٰخوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہلِ بیت رزم کا میداں بنا ہے جلوہ گاہِ حسن وعشقکربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہلِ بیت پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہواے دوست نےخون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہلِ بیت حوریں کرتی ہے عروسانِ شہادت کا سنگارخوبرو دُولھا بنا ہے ہر جوانِ اہلِ بیت ہو گئی تحقیق عیدِ دید آبِ تیغ سےاپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہلِ بیت جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج۔۔۔

مزید

جاں بلب ہوں آمیری جاں الغیاث

جاں بلب ہوں آ مری جاں الغیاثہوتے ہیں کچھ اور ساماں الغیاث درد مندوں کو دوا ملتی نہیںاے دواے درد منداں الغیاث جاں سے جاتے ہیں بے چارے غریبچارہ فرماے غریباں الغیاث حَد سے گزریں درد کی بے دردیاںدرد سے بے حد ہوں نالاں الغیاث بے قراری چین لیتی ہی نہیںاَے قرارِ بے قراراں الغیاث حسرتیں دل میں بہت بے چین ہیںگھر ہوا جاتا ہے زنداں الغیاث خاک ہے پامال میری کُو بہ کُواے ہواے کوے جاناں الغیاث المدد اے زُلفِ سرور المددہوں بلاؤں میں پریشاں الغیاث دلِ کی اُلجھن دُور کر گیسوے پاکاے کرم کے سنبلستان الغیاث اے سرِ پُر نور اے سرِ ّخداہوں سراسیمہ پریشاں الغیاث غمزدوں کی شام ہے تاریک راتاے جبیں اے ماہِ تاباں الغیاث اَبروے شہ کاٹ دے زنجیرِ غمتیرے صدقے تیرے قرباں الغیاث دل کے ہر پہلو میں غم کی پھانس ہےمیں فدا مژگانِ جاناں الغیاث چشمِ رحمت آ گیا آنکھوں میں دمدیکھ حالِ خستہ حالاں الغیاث مردمک اے م۔۔۔

مزید

پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوث

پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوثمدد پر ہو تیری اِمداد یا غوث اُڑے تیری طرف بعد فنا خاکنہ ہو مٹی مری برباد یا غوث مرے دل میں بسیں جلوے تمہارےیہ ویرانہ بنے بغداد یا غوث نہ بھولوں بھول کر بھی یاد تیرینہ یاد آئے کسی کی یاد یا غوث مُرِیْدِیْ لَا تَخَفْ فرماتے آؤبَلاؤں میں ہے یہ ناشاد یا غوث گلے تک آ گیا سیلاب غم کاچلا میں آئیے فریاد یا غوث نشیمن سے اُڑا کر بھی نہ چھوڑاابھی ہے گھات میں صیاد یا غوث خمیدہ سر گرفتارِ قضا ہےکشیدہ خنجر جلاّد یا غوث اندھیری رات جنگل میں اکیلامدد کا وقت ہے فریاد یا غوث کھلا دو غنچۂ خاطر کہ تم ہوبہارِ گلشنِ ایجاد یا غوث مرے غم کی کہانی آپ سن لیںکہوں میں کس سے یہ رُوداد یا غوث رہوں آزادِ قیدِ عشق کب تککرو اِس قید سے آزاد یا غوث کرو گے کب تک اچھا مجھ برے کومرے حق میں ہے کیا اِرشاد یا غوث غمِ دنیا غمِ قبر و غمِ حشرخدارا کر دو مجھ کو شاد یا غوث حسنؔ من۔۔۔

مزید