ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کاکچھ دخل عقل کا ہے نہ کام اِمتیاز کا شہ رگ سے کیوں وصال ہے آنکھوں سے کیوں حجابکیا کام اس جگہ خردِ ہرزہ تاز کا لب بند اور دل میں وہ جلوے بھرئے ہوئےاللہ رے جگر ترے آگاہ راز کا غش آ گیا کلیم سے مشتاقِ دید کوجلوہ بھی بے نیاز ہے اُس بے نیاز کا ہر شے سے ہیں عیاں مرے صانع کی صنعتیںعالم سب آئینوں میں ہے آئینہ ساز کا اَفلاک و ارض سب ترے فرماں پذیر ہیںحاکم ہے تو جہاں کے نشیب و فراز کا اس بے کسی میں دل کو مرے ٹیک لگ گئیشُہرہ سنا جو رحمتِ بے کس نواز کا مانندِ شمع تیری طرف لَو لگی رہےدے لطف میری جان کو سوز و گداز کا تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرمدیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجاز کا بندہ پہ تیرے نفسِ لعیں ہو گیا محیطاللہ کر علاج مری حرص و آز کا کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حسنؔبندہ بھی ہوں تو کیسے بڑے کار ساز کا ذوقِ نعت ۔۔۔
مزیدفکر اَسفل ہے مری مرتبہ اعلیٰ تیراوصف کیا خاک لکھے خاک کا پُتلا تیرا طور پر ہی نہیں موقوف اُجالا تیراکون سے گھر میں نہیں جلوۂ زیبا تیرا ہر جگہ ذکر ہے اے واحد و یکتا تیراکون سی بزم میں روشن نہیں اِکّا تیرا پھر نمایاں جو سر طُور ہو جلوہ تیراآگ لینے کو چلے عاشقِ شیدا تیرا خِیرہ کرتا ہے نگاہوں کو اُجالا تیراکیجیے کون سی آنکھوں سے نظارہ تیرا جلوۂ یار نرالا ہے یہ پردہ تیراکہ گلے مل کے بھی کھلتا نہیں ملنا تیرا کیا خبر ہے کہ علی العرش کے معنی کیا ہیںکہ ہے عاشق کی طرح عرش بھی جویا تیرا اَرِنِیِْ گوئے سرِ طُور سے پوچھے کوئیکس طرح غش میں گراتا ہے تجلّا تیرا پار اُترتا ہے کوئی، غرق کوئی ہوتا ہےکہیں پایاب کہیں جوش میں دریا تیرا باغ میں پھول ہوا، شمع بنا محفل میںجوشِ نیرنگ در آغوش ہے جلوہ تیرا نئے انداز کی خلوت ہے یہ اے پردہ نشیںآنکھیں مشتاق رہیں دل میں ہو جلوہ تیرا شہ نشیں ٹوٹے ہوئے دل ۔۔۔
مزیدجن و اِنسان و ملک کو ہے بھروسا تیراسرورا مرجعِ کل ہے درِ والا تیرا واہ اے عطرِ خدا ساز مہکنا تیراخوب رو ملتے ہیں کپڑوں میں پسینہ تیرا دَہر میں آٹھ پہر بٹتا ہے باڑا تیراوقف ہے مانگنے والوں پہ خزانہ تیرا لا مکاں میں نظر آتا ہے اُجالا تیرادُور پہنچایا ترے حسن نے شہرہ تیرا جلوۂ یار اِدھر بھی کوئی پھیرا تیراحسرتیں آٹھ پہر تکتی ہیں رستہ تیرا یہ نہیں ہے کہ فقط ہے یہ مدینہ تیراتو ہے مختار، دو عالم پہ ہے قبضہ تیرا کیا کہے وصف کوئی دشتِ مدینہ تیراپھول کی جانِ نزاکت میں ہے کانٹا تیرا کس کے دامن میں چھپے کس کے قدم پہ لوٹےتیرا سگ جائے کہاں چھوڑ کے ٹکڑا تیرا خسروِ کون و مکاں اور تواضع ایسیہاتھ تکیہ ہے ترا، خاک بچھونا تیرا خوب رویانِ جہاں تجھ پہ فدا ہوتے ہیںوہ ہے اے ماہِ عرب حُسنِ دل آرا تیرا دشتِ پُر ہول میں گھیرا ہے درندوں نے مجھےاے مرے خضر اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا بادشاہانِ جہاں بہ۔۔۔
مزیدخواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیراکبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا مئے سر جوش در آغوش ہے شیشہ تیرابے خودی چھائے نہ کیوں پی کے پیالہ تیرا خفتگانِ شبِ غفلت کو جگا دیتا ہےسالہا سال وہ راتوں کا نہ سونا تیرا ہے تری ذات عجب بحرِ حقیقت پیارےکسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا جورِ پامالیِ عالم سے اُسے کیا مطلبخاک میں مل نہیں سکتا کبھی ذرّہ تیرا کس قدر جوشِ تحیّر کے عیاں ہیں آثارنظر آیا مگر آئینے کو تلوا تیرا گلشن ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈےواہ اے ابرِ کرم زورِ برسنا تیرا کیا مہک ہے کہ معطر ہے دماغِ عالمتختۂ گلشنِ فردوس ہے روضہ تیرا تیرے ذرّہ پہ معاصی کی گھٹا چھائی ہےاس طرف بھی کبھی اے مہر ہو جلوہ تیرا تجھ میں ہیں تربیتِ خضر کے پیدا آثاربحر و بَر میں ہمیں ملتا ہے سہارا تیرا پھر مجھے اپنا درِ پاک دکھا دے پیارےآنکھیں پرُ نور ہوں پھر دیکھ کے جلوہ تیرا ظِلّ حق غوث پہ، ہے غوث کا سایہ تجھ پرسا۔۔۔
مزیدآسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتاروز اک چاند تصدق میں اُتارا کرتا طوفِ روضہ ہی پہ چکرائے تھے کچھ ناواقفمیں تو آپے میں نہ تھا اور جو سجدہ کرتا صَرصرِ دشتِ مدینہ جو کرم فرماتیکیوں میں افسردگیِ بخت کی پرواہ کرتا چھپ گیا چاند نہ آئی ترے دیدار کی تاباور اگر سامنے رہتا بھی تو سجدہ کرتا یہ وہی ہیں کہ گرِو آپ اور ان پر مچلواُلٹی باتوں پہ کہو کون نہ سیدھا کرتا ہم سے ذرّوں کی تو تقدیر ہی چمکا جاتامہر فرما کے وہ جس راہ سے نکلا کرتا دُھوم ذرّوں میں اناالشمس کی پڑ جاتی ہےجس طرف سے ہے گزر چاند ہمارا کرتا آہ کیا خوب تھا گر حاضرِ دَر ہوتا میںاُن کے سایہ کے تلے چین سے سویا کرتا شوق وآداب بہم گرمِ کشاکش رہتےعشقِ گم کردہ تواں عقل سے اُلجھا کرتا آنکھ اُٹھتی تو میں جھنجھلا کے پلک سی لیتادِل بگڑ تا تو میں گھبرا کے سنبھالا کرتا بے خودانہ کبھی سجدہ میں سوے دَر گرِتاجانبِ قبلہ کبھی چونک کے پلٹا۔۔۔
مزیدعاصیوں کو دَر تمہارا مل گیابے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کیمل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا کشفِ رازِ مَنْ رَّاٰنِی یوں ہواتم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا بے خودی ہے باعثِ کشفِ حجابمل گیا ملنے کا رستہ مل گیا اُن کے دَر نے سب سے مستغنی کیابے طلب بے خواہش اِتنا مل گیا ناخدائی کے لیے آئے حضورڈوبتو نکلو سہارا مل گیا دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیانفسِ خود مطلب تجھے کیا مل گیا خلد کیسا کیا چمن کس کا وطنمجھ کو صحراے مدینہ مل گیا آنکھیں پُرنم ہو گئیں سر جھک گیاجب ترا نقشِ کفِ پا مل گیا ہے محبت کس قدر نامِ خدانامِ حق سے نامِ والا مل گیا اُن کے طالب نے جو چاہا پا لیااُن کے سائل نے جو مانگا مل گیا تیرے دَر کے ٹکڑے ہیں اور میں غریبمجھ کو روزی کا ٹھکانا مل گیا اے حسنؔ فردوس میں جائیں جنابہم کو صحراے مدینہ مل گیا ذوقِ نعت ۔۔۔
مزیددل مِرا دنیا پہ شیدا ہو گیااے مِرے اﷲ یہ کیا ہو گیا کچھ مرے بچنے کی صورت کیجیےاب تو جو ہونا تھا مولیٰ ہو گیا عیب پوشِ خلق دامن سے ترےسب گنہ گاروں کا پردہ ہو گیا رکھ دیا جب اُس نے پتھر پر قدمصاف اک آئینہ پیدا ہو گیا دُور ہو مجھ سے جو اُن سے دُور ہےاُس پہ میں صدقے جو اُن کا ہو گیا گرمیِ بازارِ مولیٰ بڑھ چلینرخِ رحمت خوب سستا ہو گیا دیکھ کر اُن کا فروغِ حسنِ پامہر ذرّہ ، چاند تارا ہو گیا رَبِ سَلِّمْ وہ اِدھر کہنے لگےاُس طرف پار اپنا بیڑا ہو گیا اُن کے جلوؤں میں ہیں یہ دلچسپیاںجو وہاں پہنچا وہیں کا ہو گیا تیرے ٹکڑوں سے پلے دونوں جہاںسب کا اُس دَر سے گزارا ہو گیا السلام اے ساکنانِ کوے دوستہم بھی آتے ہیں جو ایما ہو گیا اُن کے صدقے میں عذابوں سے چھٹےکام اپنا نام اُن کا ہو گیا سر وہی جو اُن کے قدموں سے لگادل وہی جو اُن پہ شیدا ہو گیا حسنِ یوسف پر زلیخا مٹ گئیںآپ پر اﷲ پی۔۔۔
مزیدکہوں کیا حال زاہد، گلشن طیبہ کی نزہت کاکہ ہے خلد بریں چھوٹا سا ٹکڑا میری جنت کا تعالیٰ اللہ شوکت تیرے نامِ پاک کی آقاکہ اب تک عرشِ اعلیٰ کو ہے سکتہ تیری ہیبت کا وکیل اپنا کیا ہے احمد مختار کو میں نےنہ کیوں کر پھر رہائی میری منشا ہو عدالت کا بلاتے ہیں اُسی کو جس کی بگڑی وہ بناتے ہیںکمر بندھنا دیارِ طیبہ کو کھلنا ہے قسمت کا کھلیں اسلام کی آنکھیں ہوا سارا جہاں روشنعرب کے چاند صدقے کیا ہی کہنا تیری طلعت کا نہ کر رُسواے محشر، واسطہ محبوب کا یا ربّیہ مجرم دُور سے آیا ہے سن کر نام رحمت کا مرادیں مانگنے سے پہلے ملتی ہیں مدینہ میںہجومِ جود نے روکا ہے بڑھنا دستِ حاجت کا شبِ اسریٰ ترے جلوؤں نے کچھ ایسا سماں باندھاکہ اب تک عرشِ اعظم منتظر ہے تیری رُخصت کا یہاں کے ڈوبتے دَم میں اُدھر جا کر اُبھرتے ہیںکنارا ایک ہے بحرِ ندامت بحرِ رحمت کا غنی ہے دل، بھرا ہے نعمت کونین سے دامنگدا ہوں میں ف۔۔۔
مزیدتصور لطف دیتا ہے دہانِ پاک سرور کابھرا آتا ہے پانی میرے منہ میں حوضِ کوثر کا جو کچھ بھی وصف ہو اُن کے جمالِ ذرّہ پرور کامرے دیوان کا مطلع ہو مطلع مہرِ محشر کا مجھے بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشید محشر کالیے جاؤں گا چھوٹا سا کوئی ذرّہ ترے دَر کا جو اک گوشہ چمک جائے تمہارے ذرّۂ دَر کاابھی منہ دیکھتا رہ جائے آئینہ سکندر کا اگر جلوہ نظر آئے کفِ پاے منور کاذرا سا منہ نکل آئے ابھی خورشید محشر کا اگر دم بھر تصور کیجیے شانِ پیمبر کازباں پہ شور ہو بے ساختہ اﷲ اکبر کا اُجالا طور کا دیکھیں جمالِ جاں فزا دیکھیںکلیم آ کر اُٹھا دیکھیں ذرا پردہ ترے دَر کا دو عالم میہماں، تو میزباں، خوانِ کرم جاریاِدھر بھی کوئی ٹکڑا میں بھی کتّا ہوں ترے دَر کا نہ گھر بیٹھے ملے جوہر صفا و خاکساری کےمریدِ ذرّۂ طیبہ ہے آئینہ سکندر کا اگر اُس خندۂ دنداں نما کا وصف موزوں ہوابھی لہرا چلے بحرِ سخن سے چشمہ گوہر کا ۔۔۔
مزیدمجرمِ ہیبت زدہ جب فردِ عصیاں لے چلالطفِ شہ تسکین دیتا پیش یزداں لے چلا دل کے آئینہ میں جو تصویرِ جاناں لے چلامحفل جنت کی آرائش کا ساماں لے چلا رہروِ جنت کو طیبہ کا بیاباں لے چلادامنِ دل کھینچتا خارِ مغیلاں لے چلا گل نہ ہو جائے چراغِ زینتِ گلشن کہیںاپنے سر میں مَیں ہواے دشتِ جاناں لے چلا رُوے عالم تاب نے بانٹا جو باڑا نور کاماہِ نو کشتی میں پیالا مہرِ تاباں لے چلا گو نہیں رکھتے زمانے کی وہ دولت اپنے پاسپَر زمانہ نعمتوں سے بھر کے داماں لے چلا تیری ہیبت سے ملا تاجِ سلاطیں خاک میںتیری رَحمت سے گدا تختِ سلیماں لے چلا ایسی شوکت پر کہ اُڑتا ہے پھریرا عرش پرجس گدا نے آرزو کی اُن کو مہماں لے چلا دبدبہ کس سے بیاں ہو اُن کے نامِ پاک کاشیر کے منہ سے سلامت جانِ سلماں لے چلا صدقے اُس رحمت کے اُن کو روزِ محشر ہر طرفناشکیبا شورِ فریادِ اَسیراں لے چلا ساز و سامانِ گداے کوے سرور کیا کہوںاُس۔۔۔
مزیدقبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیاکعبہ کا بھی قبلہ خمِ اَبرو نظر آیا محشر میں کسی نے بھی مری بات نہ پوچھیحامی نظر آیا تو بس اِک تو نظر آیا پھر بندِ کشاکش میں گرفتار نہ دیکھےجب معجزۂ جنبشِ اَبرو نظر آیا اُس دل کے فدا جو ہے تری دید کا طالباُن آنکھوں کے قربان جنھیں تو نظر آیا سلطان و گدا سب ہیں ترے دَر کے بھکاریہر ہاتھ میں دروازے کا بازو نظر آیا سجدہ کو جھکا جائے براہیم میں کعبہجب قبلۂ کونین کا اَبرو نظر آیا بازارِ قیامت میں جنھیں کوئی نہ پوچھےایسوں کا خریدار ہمیں تو نظر آیا محشر میں گنہ گار کا پلّہ ہوا بھاریپلہ پہ جو وہ قربِ ترازو نظر آیا یا دیکھنے والا تھا ترا یا ترا جویاجو ہم کو خدا بِین و خدا جُو نظر آیا شل ہاتھ سلاطیں کے اُٹھے بہرِ گدائیدروازہ ترا قوتِ بازو نظر آیا یوسف سے حسیں اور تمناے نظارہعالم میں نہ تم سا کوئی خوش رُو نظر آیا فریادِ غریباں سے ہے محشر میں۔۔۔
مزیدایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایایوسف کو ترا طالبِ دیدار بنایا طلعت سے زمانے کو پُر انوار بنایانکہت سے گلی کوچوں کو گلزار بنایا دیواروں کو آئینہ بناتے ہیں وہ جلوےآئینوں کو جن جلوؤں نے دیوار بنایا وہ جنس کیا جس نے جسے کوئی نہ پوچھےاُس نے ہی مرا تجھ کو خریدار بنایا اے نظم رسالت کے چمکتے ہوئے مقطعتو نے ہی اُسے مطلعِ انوار بنایا کونین بنائے گئے سرکار کی خاطرکونین کی خاطر تمہیں سرکار بنایا کنجی تمھیں دی اپنے خزانوں کی خدا نےمحبوب کیا مالک و مختار بنایا اﷲ کی رحمت ہے کہ ایسے کی یہ قسمتعاصی کا تمہیں حامی وغم خوار بنایا آئینۂ ذاتِ احدیٰ آپ ہی ٹھہرےوہ حسن دیا ایسا طرح دار بنایا انوارِ تجلیّٰ سے وہ کچھ حیرتیں چھائیںسب آئینوں کو پشت بدیوار بنایا عالم کے سلاطین بھکاری ہیں بھکاریسرکار بنایا تمھیں سرکار بنایا گلزار کو آئینہ کیا منہ کی چمک نےآئینہ کو رُخسار نے گل زار بنایا یہ لذتِ پا۔۔۔
مزید