اگر چمکا مقدر خاک پاے رہرواں ہو کرچلیں گے بیٹھتے اُٹھتے غبارِ کارواں ہو کر شبِ معراج وہ دم بھر میں پلٹے لامکاں ہو کربَہارِ ہشت جنت دیکھ کر ہفت آسماں ہو کر چمن کی سیر سے جلتا ہے جی طیبہ کی فرقت میںمجھے گلزار کا سبزہ رُلاتاہے دُھواں ہو کر تصور اُس لبِ جاں بخش کا کس شان سے آیادلوں کا چین ہو کر جان کا آرامِ جاں ہو کر کریں تعظیم میری سنگِ اسود کی طرح مومنتمہارے دَر پہ رہ جاؤں جو سنگِ آستاں ہو کر دکھا دے یا خدا گلزارِ طیبہ کا سماں مجھ کوپھروں کب تک پریشاں بلبلِ بے آشیاں ہو کر ہوئے یُمن قدم سے فرش و عرش و لامکاں زندہخلاصہ یہ کہ سرکار آئے ہیں جانِ جہاں ہو کر ترے دستِ عطا نے دولتیں دیں دل کیے ٹھنڈےکہیں گوہر فشاں ہو کر کہیں آبِ رواں ہو کر فدا ہو جائے اُمت اِس حمایت اِس محبت پرہزاروں غم لیے ہیں ایک دل پُر شادماں ہو کر جو رکھتے ہیں سلاطیں شاہیِ جاوید کی خواہشنشاں قائم کریں اُن کی گ۔۔۔
مزیدمرحبا عزت و کمالِ حضورہے جلالِ خدا جلالِ حضور اُن کے قدموں کی یاد میں مریےکیجیے دل کو پائمالِ حضور دشتِ ایمن ہے سینۂ مؤمندل میں ہے جلوۂ خیالِ حضور آفرنیش کو ناز ہے جس پرہے وہ انداز بے مثالِ حضور مَاہ کی جان مہر کا ایماںجلوۂ حُسنِ بے زوالِ حضور حُسنِ یوسف کرے زلیخائیخواب میں دیکھ کر جمالِ حضور وقفِ انجاح مقصدِ خدامہر شب و روز و ماہ و سالِ حضور سکہ رائج ہے حکم جاری ہےدونوں عالم ہیں مُلک و مالِ حضور تابِ دیدار ہو کسے جو نہ ہوپردۂ غیب میں جمالِ حضور جو نہ آئی نظر نہ آئے نظرہر نظر میں ہے وہ مثالِ حضور اُنھیں نقصان دے نہیں سکتادشمن اپنا ہے بد سگالِ حضور دُرّۃ التاج فرقِ شاہی ہےذرّۂ شوکتِ نعالِ حضور حال سے کشفِ رازِ قال نہ ہوقال سے کیا عیاں ہو حالِ حضور منزلِ رُشد کے نجوم اصحابکشتیِ خیر و امنِ آلِ حضور ہے مسِ قلب کے لیے اکسیراے حسنؔ خاکِ پائمالِ حضور ذوقِ نعت ۔۔۔
مزیدسیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کرسوے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر سر گزشتِ غم کہوں کس سے ترے ہوتے ہوئےکس کے دَر پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر بے لقاے یار اُن کو چین آ جاتا اگربار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر کون کہتا ہے دلِ بے مدعا ہے خوب چیزمیں تو کوڑی کو نہ لوں اُن کی تمنا چھوڑ کر مر ہی جاؤں میں اگر اُس دَر سے جاؤں دو قدمکیا بچے بیمارِ غم قربِ مسیحا چھوڑ کر کس تمنا پر جئیں یا رب اَسیرانِ قفسآ چکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر بخشوانا مجھ سے عاصی کا رَوا ہو گا کسےکس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر خلد کیسا نفسِ سرکش جاؤں گا طیبہ کو میںبد چلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رستہ چھوڑ کر ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثارکیا غرض کیوں جاؤں جنت کو مدینہ چھوڑ کر حشر میں ایک ایک کا منہ تکتے پھرتے ہیں عدوآفتوں میں پھنس گئے اُن کا سہارا چھوڑ کر مرکے جیتے ہیں جو اُن کے ۔۔۔
مزیدجتنا مرے خدا کو ہے میرا نبی عزیزکونین میں کسی کو نہ ہو گا کوئی عزیز خاکِ مدینہ پر مجھے اﷲ موت دےوہ مردہ دل ہے جس کو نہ ہو زندگی عزیز کیوں جائیں ہم کہیں کہ غنی تم نے کر دیااب تو یہ گھر پسند ، یہ دَر ، یہ گلی عزیز جو کچھ تری رِضا ہے خدا کی وہی خوشیجو کچھ تری خوشی ہے خدا کو وہی عزیز گو ہم نمک حرام نکمّے غلام ہیںقربان پھر بھی رکھتی ہے رحمت تری عزیز شانِ کرم کو اچھے بُرے سے غرض نہیںاُس کو سبھی پسند ہیں اُس کو سبھی عزیز منگتا کا ہاتھ اُٹھا تو مدینہ ہی کی طرفتیرا ہی دَر پسند، تری ہی گلی عزیز اُس دَر کی خاک پر مجھے مرنا پسند ہےتختِ شہی پہ کس کو نہیں زندگی عزیز کونین دے دیے ہیں ترے اِختیار میںاﷲ کو بھی کتنی ہے خاطر تری عزیز محشر میں دو جہاں کو خدا کی خوشی کی چاہمیرے حضور کی ہے خدا کو خوشی عزیز قرآن کھا رہا ہے اِسی خاک کی قسمہم کون ہیں خدا کو ہے تیری گلی عزیز طیبہ کی خاک ہو کہ حیاتِ ۔۔۔
مزیدہوں جو یادِ رُخِ پُر نور میں مرغانِ قفسچمک اُٹھے چہِ یوسف کی طرح شانِ قفس کس بَلا میں ہیں گرفتارِ اسیرانِ قفسکل تھے مہمانِ چمن آج ہیں مہمانِ قفس حیف در چشمِ زدن صحبتِ یار آخر شداب کہاں طیبہ وہی ہم وہی زندانِ قفس روے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شدہائے کیا قہر کیا اُلفتِ یارانِ قفس نوحہ گر کیوں نہ رہے مُرغِ خوش اِلحانِ چمنباغ سے دام ملا دام سے زِندانِ قفس پائیں صحراے مدینہ تو گلستاں مل جائےہند ہے ہم کو قفس ہم ہیں اسیرانِ قفس زخمِ دل پھول بنے آہ کی چلتی ہے نسیمروز افزوں ہے بہارِ چمنستانِ قفس قافلہ دیکھتے ہیں جب سوے طیبہ جاتےکیسی حسرت سے تڑپتے ہیں اسیرانِِ قفس تھا چمن ہی ہمیں زنداں کہ نہ تھا وہ گل ترقید پر قید ہوا اور یہ زِندانِ قفس دشتِ طیبہ میں ہمیں شکل وطن یاد آئیبد نصیبی سے ہوا باغ میں ارمانِ قفس اَب نہ آئیں گے اگر کھل گئی قسمت کی گرہاب گرہ باندھ لیا ہم نے یہ پیمانِ قفس ہ۔۔۔
مزیدجنابِ مصطفےٰ ہوں جس سے نا خوشنہیں ممکن ہو کہ اُس سے خدا خوش شہِ کونین نے جب صدقہ بانٹازمانے بھر کو دَم میں کر دیا خوش سلاطیں مانگتے ہیں بھیک اُس سےیہ اپنے گھر سے ہے اُن کا گدا خوش پسندِ حقِ تعالیٰ تیری ہر باتترے انداز خوش تیری ادا خوش مٹیں سب ظاہر و باطن کے امراضمدینہ کی ہے یہ آب و ہوا خوش فَتَرْضٰی کی محبت کے تقاضےکہ جس سے آپ خوش اُس سے خدا خوش ہزاروں جرم کرتا ہوں شب و روزخوشا قسمت نہیں وہ پھر بھی نا خوش الٰہی دے مرے دل کو غمِ عشقنشاطِ دَہر سے ہو جاؤں ناخوش نہیں جاتیں کبھی دشت نبی سےکچھ ایسی ہے بہاروں کو فضا خوش مدینہ کی اگر سرحد نظر آئےدلِ ناشاد ہو بے اِنتہا خوش نہ لے آرام دم بھر بے غمِ عشقدلِ مضطر میں خوش میرا خدا خوش نہ تھا ممکن کہ ایسی معصیت پرگنہگاروں سے ہو جاتا خدا خوش تمہاری روتی آنکھوں نے ہنسایاتمہارے غمزدہ دل نے کیا خوش الٰہی دُھوپ ہو اُن کی گلی کیمرے سر کو۔۔۔
مزیدخدا کی خلق میں سب انبیا خاصگروہِ انبیا میں مصطفےٰ خاص نرالا حُسنِ انداز و اَدا خاصتجھے خاصوں میں حق نے کر لیا خاص تری نعمت کے سائل خاص تا عامتری رحمت کے طالب عام تا خاص شریک اُس میں نہیں کوئی پیمبرخدا سے ہے تجھ کو واسطہ خاص گنہگارو! نہ ہو مایوسِ رحمتنہیں ہوتی کریموں کی عطا خاص گدا ہوں خاص رحمت سے ملے بھیکنہ میں خاص اور نہ میری اِلتجا خاص ملا جو کچھ جسے وہ تم سے پایاتمھیں ہو مالکِ مُلکِ خدا خاص غریبوں بے نواؤں بے کسوں کوخدا نے در تمہارا کر دیا خاص جو کچھ پیدا ہوا دونوں جہاں میںتصدق ہے تمہاری ذات کا خاص تمہاری انجمن آرائیوں کوہوا ہنگامۂ قَالُوْا بَلٰی خاص نبی ہم پایہ ہوں کیا تو نے پایانبوت کی طرح ہر معجزہ خاص جو رکھتا ہے جمالِ مَنْ رَّاٰنِیْاُسی منہ کی صفت ہے وَالضُّحٰی خاص نہ بھیجو اور دروازوں پر اِس کوحسنؔ ہے آپ کے در کا گدا خاص ذوقِ نعت ۔۔۔
مزیدسن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرضیہ عرض ہے حضور بڑے بے نوا کی عرض اُن کے گدا کے دَر پہ ہے یوں بادشاہ کی عرضجیسے ہو بادشاہ کے دَر پہ گدا کی عرض عاجز نوازیوں پہ کرم ہے تُلا ہواوہ دل لگا کے سنتے ہیں ہر بے نوا کی عرض قربان اُن کے نام کے بے اُن کے نام کےمقبول ہو نہ خاصِ جنابِ خدا کی عرض غم کی گھٹائیں چھائی ہیں مجھ تیرہ بخت پراے مہر سن لے ذرّۂ بے دست و پا کی عرض اے بے کسوں کے حامی و یاور سوا ترےکس کو غرض ہے کون سنے مبتلا کی عرض اے کیمیاے دل میں ترے دَر کی خاک ہوںخاکِ دَر حضور سے ہے کیمیا کی عرض اُلجھن سے دُور نور سے معمور کر مجھےاے زُلفِ پاک ہے یہ اَسیرِ بلا کی عرض دُکھ میں رہے کوئی یہ گوارا نہیں اُنہیںمقبول کیوں نہ ہو دلِ درد آشنا کی عرض کیوں طول دوں حضور یہ دیں یہ عطا کریںخود جانتے ہیں آپ مرے مدعا کی عرض دَامن بھریں گے دولتِ فضلِ خدا سے ہمخالی کبھی گئی ہے حسنؔ مصطفےٰ کی عرض ذوق۔۔۔
مزیدچشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربطرکھے خاکِ درِ دلدار سے ربط اُن کی نعمت کا طلبگار سے میلاُن کی رحمت کا گنہگار سے ربط دشتِ طیبہ کی جو دیکھ آئیں بہارہو عنادِل کو نہ گلزار سے ربط یا خدا دل نہ ملے دُنیا سےنہ ہو آئینہ کو زنگار سے ربط نفس سے میل نہ کرنا اے دلقہر ہے ایسے ستم گار سے ربط دلِ نجدی میں ہو کیوں حُبِّ حضورظلمتوں کو نہیں اَنوار سے ربط تلخیِ نزع سے اُس کو کیا کامہو جسے لعل شکر بار سے ربط خاک طیبہ کی اگر مل جائےآپ صحت کرے بیمار سے ربط اُن کے دامانِ گہر بار کو ہےکاسۂ دوست طلبگار سے ربط کل ہے اجلاس کا دن اور ہمیںمیل عملہ سے نہ دربار سے ربط عمر یوں اُن کی گلی میں گزرےذرّہ ذرّہ سے بڑھے پیار سے ربط سرِ شوریدہ کو ہے دَر سے میلکمر خستہ کو دیوار سے ربط اے حسنؔ خیر ہے کیا کرتے ہویار کو چھوڑ کر اَغیار سے ربط ذوقِ نعت۔۔۔
مزیدخاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وقعت محفوظعیبِ کوری سے رہے چشمِ بصیرت محفوظ دل میں روشن ہو اگر شمع وِلاے مولیٰدُزدِ شیطا ں سے رہے دین کی دولت محفوظ یا خدا محو نظارہ ہوں یہاں تک آنکھیںشکل قرآں ہو مرے دل میں وہ صورت محفوظ سلسلہ زُلفِ مبارک سے ہے جس کے دل کوہر بَلا سے رکھے اﷲ کی رحمت محفوظ تھی جو اُس ذات سے تکمیل فرامیں منظوررکھی خاتم کے لیے مہر نبوت محفوظ اے نگہبان مرے تجھ پہ صلوٰۃ اور سلامدو جہاں میں ترے بندے ہیں سلامت محفوظ واسطہ حفظِ الٰہی کا بچا رہزن سےرہے ایمانِ غریباں دمِ رحلت محفوظ شاہیِ کون و مکاں آپ کو دی خالق نےکنز قدرت میں اَزل سے تھی یہ دولت محفوظ تیرے قانون میں گنجائش تبدیل نہیںنسخ و ترمیم سے ہے تری شریعت محفوظ جسے آزاد کرے قامتِ شہ کا صدقہرہے فتنوں سے وہ تا روزِ قیامت محفوظ اُس کو اَعدا کی عداوت سے ضرر کیا پہنچےجس کے دل میں ہو حسنؔ اُن کی محبت محفوظ ذوقِ نعت ۔۔۔
مزیدمدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیععروج و اَوج ہیں قربانِ بارگاہِ رفیع نہیں گدا ہی سرِ خوانِ بارگاہِ رفیعخلیل بھی تو ہیں مہمانِ بارگاہِ رفیع بنائے دونوں جہاں مجرئی اُسی دَر کےکیا خدا نے جو سامانِ بارگاہِ رفیع زمینِ عجز پہ سجدہ کرائیں شاہوں سےفلک جناب غلامانِ بارگاہِ رفیع ہے انتہاے علا ابتداے اَوج یہاںورا خیال سے ہے شانِ بارگاہِ رفیع کمند رشتۂ عمر خضر پہنچ نہ سکےبلند اِتنا ہے ایوانِ بارگاہِ رفیع وہ کون ہے جو نہیں فیضیاب اِس دَر سےسبھی ہیں بندۂ احِسانِ بارگاہِ رفیع نوازے جاتے ہیں ہم سے نمک حرام غلامہماری جان ہو قربانِ بارگاہِ رفیع مطیع نفس ہیں وہ سرکشانِ جن و بشرنہیں جو تابعِ فرمانِ بارگاہِ رفیع صلاے عام ہیں مہماں نواز ہیں سرکارکبھی اٹھا ہی نہیں خوانِ بارگاہِ رفیع جمالِ شمس و قمر کا سنگار ہے شب و روزفروغِ شمسۂ ایوانِ بارگاہِ رفیع ملائکہ ہیں فقط دابِ سلطنت کے لیےخدا ہے آپ نگہب۔۔۔
مزیدخوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغمہکائے بوے خلد مرا سر بسر دماغ پایا ہے پاے صاحبِ معراج سے شرفذرّاتِ کوے طیبہ کا ہے عرش پر دماغ مومن فداے نور و شمیم حضور ہیںہر دل چمک رہا ہے معطر ہے ہر دماغ ایسا بسے کہ بوے گل خلد سے بسےہو یاد نقشِ پاے نبی کا جو گھر دماغ آباد کر خدا کے لیے اپنے نور سےویران دل ہے دل سے زیادہ کھنڈر دماغ ہر خارِ طیبہ زینتِ گلشن ہے عندلیبنادان ایک پھول پر اتنا نہ کر دماغ زاہد ہے مستحقِ کرامت گناہ گاراللہ اکبر اتنا مزاج اس قدر دماغ اے عندلیب خارِ حرم سے مثالِ گلبک بک کے ہرزہ گوئی سے خالی نہ کر دماغ بے نور دل کے واسطے کچھ بھیک مانگتےذرّاتِ خاکِ طیبہ کا ملتا اگر دماغ ہر دم خیالِ پاک اقامت گزیں رہےبن جائے گر دماغ نہ ہو رہ گزر دماغ شاید کہ وصف پاے نبی کچھ بیاں کرےپوری ترقیوں پہ رسا ہو اگر دماغ اُس بد لگام کو خر دجال جانئےمنہ آئے ذکر پاک کو سن کر جو خر دماغ اُن کے خ۔۔۔
مزید