مولانا عبدِ حق محدثوہ سرورِ انبیا کے وارث ہے اُن کی کتاب پاک ’اخبار‘تحریر ہے اس میں ذکرِ اخیار مرقوم ہے اس میں یہ روایتچمکا جو وہ ماہِ قادریت آیا رمضان کا زمانہروزوں کا ہوا جہاں میں چرچا کی شہرِ صیام کی یہ توقیردن میں نہ پیا حضور نے شِیر گو عالمِ شِیر خوارگی تھاپر پاسِ شریعتِ نبی تھا جب تک نہ ہو پیروِ شریعتکیا جانے حقیقتِ طریقت جو راہ نہ پوچھے مصطفی سےکس طرح وہ جا ملے خدا سے جس شخص نے راستہ کو چھوڑامنزل کی طرف سے منہ کو موڑا جو آپ ہی راہ گُم کیے ہوکیا راہ بتائے وہ کسی کو خود گم سے کوئی پتا نہ پوچھےگمراہ سے راستہ نہ پوچھے رہبر کی جو اقتدا نہ بھولاوہ بھول کے راستہ نہ بھولا وسائلِ بخشش۔۔۔
مزیدفرماتے ہیں ’تحفہ‘ میں معالیہیں ابن حضور پاک(۱) راوی فرماتے ہیں ابن مصطفی(۲) یہ بچپن کا ہے میرے ماجرا یہ طفلی میں جو چاہتا کبھی جیاطفال میں ہوں شریک بازی دیتا کوئی غیب سے یکایکآواز اِلَیَّ یَا مُبَارَک (۳) سن کر یہ صدا جو خوف آتامیں گود میں والدہ کی جاتا تھی پہلے جو یہ صداے عشرتسنتا ہوں اب اُس کو وقتِ خلوت کچھ تو نے سنا حسنؔ یہ کیا تھایہ کون اُنہیں بلا رہا تھا ہاں کیوں نہ ہوں وہ کمال محبوباللہ کو ہے جمالِ محبوب کیوں کر ہو ثناے خوب رویاںقربان اَداے خوب رویاںـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ(۱) شیخ عبدالرزاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ۲۱ منہ(۲) مراد است از ذات پاک حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ۔۲۱منہ(۳) یعنی اے میرے مالک! میری طرف آ۔ جیلاں میں طلب کے ساتھ یہ کدمعراج میں اُدْنُ یَا مُحَمَّدْ مژدہ ہو تجھے مرے دل زارتو بھی ہے انہیں کا کفش بردار کیا ظلمتِ گور۔۔۔
مزیدفرماتے ہیں شیخ عبدالرزاقفرخندہ سیر ستودہ اخلاق پوچھا یہ جناب سے کسی نےکب خود کو ولی حضور سمجھے؟ فرمایا کہ دس برس کے تھے ہمجاتے تھے جو پڑھنے کے لیے ہم پہنچانے کے واسطے فرشتے ٔمکتب کو ہمارے ساتھ جاتے جب مدرسہ تک پہنچتے تھے ہملڑکوں سے یہ کہتے تھے وہ اُس دم محبوبِ خدا کے بیٹھنے کواِطفال جگہ فراخ کر دو(۱) ایک شخص کو ایک روز دیکھادیکھا تھا نہ اس سے پہلے اصلاَ اُس نے یہ کسی مَلک سے پوچھاکچھ مجھ کو بتاؤ حال اِن کا یہ کون صبّی ہیں باوجاہتسرکار میں جن کی ہے یہ عزتــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ(۱) تحفۃ القادریہ(فارسی) ، صفحہ18 پر ہے ، اَفْسَحُوْا لِوَلِیِّ اللّٰہِ یعنی اُٹھو اور خدا کے ولی کو جگہ دو۔قادری بولا کہ ولی ہیں اولیا سےتوقیر یہ پائیں گے خدا سے بے تبع عطا عطا کریں گےبے پردہ لقا عطا کریں گے تمکیں انہیں بے حجاب دیں گےجو دیں گے وہ بے حساب دیں گے حاصل ہو انہی۔۔۔
مزیددایہ ہوئیں ایک روز حاضراور عرض یہ کی کہ عبدِ قادِر بچپن میں تو اُڑ کے گود سے تمہو جاتے تھے آفتاب میں گم امکان میں ہے یہ حال اب بھیکر سکتے ہو یہ کمال اب بھی ارشاد ہوا بخوش بیانیوہ عہد تھا عہدِ ناتُوانی اُس وقت ہم صغیر سِنْ تھےکمزوری و ضُعف کے وہ دن تھے طاقت تھی جو ہم میں مہر سے کمچھپ جاتے تھے آفتاب میں ہم اب ایسے ہزار مہر آئیںگُم ہم میں ہوں پھر پتا نہ پائیں صدقے ترے اے جمال والےقربان تری تجلیوں کے تو رُخ سے اگر اُٹھا دے پردےہر ذرّہ کو آفتاب کر دے وہ حسن دیا تجھے خدا نےمحبوب کیا تجھے خدا نے ہر جلوہ بہار گلشنِ نورہر عکس طرازِ دامنِ نور تو نورِ جنابِ کبریا ہےتو چشم و چراغِ مصطفی ہے کہتی ہے یہ تیرے رُخ کی تنویرمیں سُورۂ نور کی ہوں تفسیر اے دونوں جہان کے اجالےتاریکیِ قبر سے بچا لے میں داغِ گناہ کہاں چھپاؤںیہ رُوے سیاہ کسے دکھاؤں ظلمت ہو بیان کیا گناہ کیچھائی ہوئی ہے گھٹا ۔۔۔
مزیدمنقول ہے ’تحفہ‘ میں روایتبچپن میں ہوا یہ قصدِ حضرت کھیتی کو کریں وسیلۂ رزقمسنون ہے کسبِ حیلۂ رزق جس دن یہ خیال شاہ کو آیالکھتے ہیں وہ روز عرفہ کا تھا نر گاؤ کو لے چلے جو آقامنہ پھیر اس طرح وہ بولا یہ حکم نہ آپ کو دیا ہےمخلوق نہ اس لیے کیا ہے(۱) سن کر یہ کلام ڈر گئے آپگھر آئے تو سقف پر گئے آپ وہ نیّرِ دیں جو بام پر آئےحاجی عرفات میں نظر آئے سبحان اللہ اے تیری شانیہ بام کہاں، کہاں وہ میدان صدہا منزل کا فاصلہ تھایاں پاؤں تلے کا ماجرا تھا ہاں چاند ہیں بامِ آسماں ہےگردُوں سے قمر کو سب عیاں ہے یہ دیکھ کر آئے پیشِ مادرگویا ہوئے اس طرح سے سرور امی مجھے اِذن کی ہو اِمداداب کارِ خدا میں کیجیے آزاد بغداد کو جاؤں علم سیکھوںاللہ کے نیک بندے دیکھوں مادر نے سبب جو اس کا پوچھادیکھا تھا جو کچھ وہ کہہ سنایا وہ روئیں، اُٹھیں، گئیں، پھر آئیںمیراثِ پدر جو تھی وہ لائ۔۔۔
مزیدمنقول ہے قول شیخ عمراں فرماتے ہیں اس طرح وہ ذیشاں اک دن میں گیا حضور سرکاراور عرض یہ کی کہ شاہِ ابرار گر کوئی با ادعاے نسبتکہتا ہو کہ ہوں مرید حضرت واقع میں نہ کی ہو بیعت اُس نےپائی نہ ہو یہ کرامت اُس نے خرقہ نہ کیا ہو یاں سے حاصل کیا وہ بھی مریدوں میں ہے داخل گویا ہوئے یوں خدا کے محبوبجو آپ کو ہم سے کر دے منسوب مقبول کرے خداے برترہوں عفو گناہ اس کے یکسر ہو گرچہ َاسیرِ دامِ عصیاںہے داخلِ زمرۂ مریداں (۱) ہاں مژدہ ہو بہرِ قادریاںہے جوش پہ بحر فیضِ احساں دیکھے تو کوئی حسنؔ کہاں ہے وہ وقفِ غم و محن کہاں ہے کہہ دو کہ گئی اَلم کی ساعتسرکار لٹا رہے ہیں دولت سلطان ہے بر سرِ عطا آدامن پھیلائے دوڑتا آ کیوں کوہِ اَلم تجھے دبائےکیوں کاوِشِ غم تجھے ستائے سرکارِ کریم ہے یہ درباردربارِ کریم ہے دُربار جھوٹوں بھی جو ہو غلام کوئیاُس کا بھی رُکے نہ کام کوئی رد کرنے کا یاں نہیں ہے معمولہی۔۔۔
مزیداے دل یہ بیاں ہے قابل سیرفرماتے ہیں حضرت ابوالخیر ہیں اور میرے ساتھ کچھ مکرمحاضر تھے حضورِ غوثِ اعظم فرمانے لگے جنابِ والامقبول حضور حق تعالیٰ ہم آج کہ بر سرِ عطا ہیںاور مظہرِ رحمتِ خدا ہیں جو کچھ مانگو عطا کریں گےحاجت سب کی روا کریں گے سن کر یہ ابو سعید اُٹھےیوں پیش جنابِ شیخ اُٹھے یہ خواہش دل ہے تاجدار آجاِمداد ہو ترک اختیار آج یعنی کہ فقط یہ چاہتا ہوںمیں اپنی طرف سے کچھ نہ چاہوں پھر حضرت ابن قاید اُٹھ کر گویا ہوئے اس طرح کہ سرور ہے میری یہی مراد و حاجتپاؤں میں مجاہدہ کی قوت بزاز عمر نے عرض کی یہ یا شاہ ہے مطلب دلی یہ ہو خوفِ خدا مجھے عنایت اور صدق و صفا عطا ہو حضرت پھر بولے حَسَن کہ شاہِ عالم یہ حال میرا فزوں ہو ہر دم بولے یہ جمیل مجھ کو حضرت حفظِ اوقات کی ہے حاجت پھر بوالبرکات نے کہا یوں محبوب ہو عشق مانگتا ہوں پھر میں نے یہ عرض کی کہ سرکار بندہ کو وہ معرفت ہے درکار۔۔۔
مزیداﷲ! برائے غوث الاعظمدے مجھ کو ولاے غوث الاعظم دیدارِ خدا تجھے مبارک اے محوِ لقاے غوث الاعظم وہ کون کریم صاحبِ جُود میں کون گداے غوث الاعظم سُوکھی ہوئی کھتیاں ہری کر اے ابرِ سخاے غوث الاعظم اُمیدیں نصیب، مشکلیں حل قربان عطاے غوث الاعظم کیا تیزیِ مہرِ حشر سے خوف ہیں زیرِ لواے غوث الاعظم وہ اور ہیں جن کو کہیے محتاج ہم تو ہیں گداے غوث الاعظم ہیں جانبِ نالۂ غریباں گوشِ شنواے غوث الاعظم کیوں ہم کو ستائے نارِ دوزخ کیوں رد ہو دعاے غوث الاعظم بیگانے بھی ہو گئے یگانے دَل کش ہے اداے غوث الاعظم آنکھوں میں ہے نور کی تجلی پھیلی ہے صباے غوث الاعظم جو دم میں غنی کرے گدا کو وہ کیا ہے عطاے غوث الاعظم کیوں حشر کے دن ہو فاش پردہ ہیں زیرِ قباے غوث الاعظم آئینۂ روئے خوبرویاں نقشِ کفِ پاے غوث الاعظم اے دل نہ ڈر ان بلائوں سے اب وہ آئی صداے غوث الاعظم اے غم جو ستائے اب تو جانوں لے دیکھ وہ آئ۔۔۔
مزیدمنقول ہے قاسم و عمر سےدل شاد ہوا ہے اِس خبر سے کہتے تھے حضور مایۂ نُور جب چہک کے گرے حسین منصور اُس وقت میں تھا نہ کوئی ایسا جو ہاتھ پکڑ کے روک لیتا ہوتا جو وہ عہد ہم سے آباد ہم کرتے ضرور اُن کی اِمداد جو شخص ہوا ہے ہم سے بیعت یاوَر ہیں ہم اُس کے تا قیامت ہر حال میں اُس کا ساتھ دیں گے پھسلے گا قدم تو ہاتھ دیں گے اس شانِ رفیع کے تصدق اس لطف وسیع کے تصدق یا غوث صراط پر چلوں جب لغزش میں نہ آنے پائے مرکب ثابت قدمی یہ لطف دے جائے جنت مجھے ہاتھوں ہاتھ لے جائے گھبرائے صراط پر نہ خادم حافظ ہو صداے رَبِ َسلِّمْ وسائلِ بخشش۔۔۔
مزیدکہتے ہیں عدی بن مسافرتھا مجلسِ وعظ میں مَیں حاضر ناگاہ ہوا شروع باراں ہونے لگی انجمن پریشاں دیکھے جو یہ برہمی کے اَطوار سر سوئے فلک اُٹھا کے اک بار کہنے لگے اس طرح وہ ذیشاں میں تو کروں جمع تُو پریشاں فوراً وہ مقام چھوڑ کر ابر تھا قطرہ فشاں اِدھر اُدھر برابر اللہ رے جلالِ قادریّت قربان کمالِ قادریّت اے حاکم و بادشاہِ عالم اے داد رس و پناہِ عالم گِھر آئے ہیں غم کے کالے بادل چھائے ہیں اَلم کے کالے بادل سینہ میں جگر ہے پارہ پارہ للہ! ادھر بھی اک اِشارہ وسائلِ بخشش۔۔۔
مزیدعیسیٰ نے وہ ماجرا سنایاجس نے دلِ مُردہ کو جِلایا کہتے ہیں کہ پیش شاہِ ابرار آ کر یہ کیا کسی نے اظہار اک شخص کہ حال میں مرا ہے کیا جانیے اُس پہ کیا بَلا ہے مرقد میں ہے درد مند ہر دم ہے شور و فُغاں بلند ہر دم فرمانے لگے یہ سُن کے حضرت کیا ہم سے وہ کر چکا ہے بیعت اُس کا کبھی یاں ہوا ہے آنا کھایا ہے ہمارے گھر کا کھانا مخبر نے کہا کہ شاہِ ذی جاہ ان باتوں سے میں نہیں کچھ آگاہ اِرشاد ہوا کرم کا جھالا محروم پہ ہے فزوں برستا کچھ دیر مراقبہ کیا پھر ہیبت ہوئی روئے شاہ سے ظاہر پھر آپ یہ سر اُٹھا کے بولے دیتے ہیں ہمیں خبر فرشتے اُس شخص نے ایک بار سرور دیکھا تھا جمال روئے انور اور دل میں گمانِ نیک لایا اس وجہ سے حق نے اُس کو بخشا(۱) اُس قبر کو جا کے پھر جو دیکھا فریاد کا کچھ اثر نہ پایا عیسیٰ نے عجب خبر سنائی کی جس کی ادا نے جاں فزائی کیوں جان میں جان آ نہ جائے ٹوٹے ہوئے آسرے بندھا۔۔۔
مزیداے کریم بنِ کریم اے رہنما اے مقتدا اخترِ برجِ سخاوت گوہرِ درجِ عطا آستانے پہ ترے حاضر ہے یہ تیرا گدا لاج رکھ لے دست و دامن کی مرے بہرِ خداروے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روے منحرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوے منشاہِ اقلیمِ ولایت سرورِ کیواں جناب ہے تمہارے آستانے کی زمیں گردوں قبابحسرتِ دل کی کشاکش سے ہیں لاکھوں اضطراب التجا مقبول کیجے اپنے سائل کی شتابروے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روے منحرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوے منسالکِ راہِ خدا کو راہنما ہے تیری ذات مسلکِ عرفانِ حق ہے پیشوا ہے تیری ذاتبے نوایانِ جہاں کا آسرا ہے تیری ذات تشنہ کاموں کے لیے بحر عطا ہے تیری ذاتروے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روے منحرمتِ روحِ پی۔۔۔
مزید