/ Thursday, 13 March,2025


وسائلِ بخشش   (17)





گلریز بنا ہے شاخِ خامہ

گلریز بنا ہے شاخِ خامہ فردوس بنا ہوا ہے نامہ نازل ہیں وہ نور کے مضامیںیاد آتے ہیں طور کے مضامیں سینہ ہے تجلّیوں کا مسکنہے پیشِ نگاہ دشتِ ایمن توحید کے لطف پا رہا ہوںوحدت کے مزے اُڑا رہا ہوں دل ایک ہے دل کا مدعا ایکایماں ہے مرا کہ ہے خدا ایک وہ ایک نہیں جسے گنیں ہموہ ایک نہیں جو دو سے ہو کم دو ایک سے مل کے جو بنا ہووہ ایک کسی کا کب خدا ہو اَحْوَل ہے جو ایک کو کہے دواندھوں سے کہو سنبھل کے دیکھو اُس ایک نے دو جہاں بنائےاک ’کُنْ‘ سے سب انس و جاں بنائے اوّل ہے وہی، وہی ہے آخرباطن ہے وہی، وہی ہے ظاہر ظاہر نے عجب سماں دکھایاموجود ہے اور نظر نہ آیا کس دل میں نہیں جمال اُس کاکس سر میں نہیں خیال اُس کا وہ ’حبلِ ورِید‘ سے قریں ہےہاں تاب نظر میں نہیں ہے فرمان ہے یُؤمِنُونَ بِالْغَیْبنادیدہ وہ نورِ حق ہے لارَیْب آنکھوں میں نظر، نظر کناں ہےآنکھیں تو کہیں، ۔۔۔

مزید

آیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناں

آیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناںقابو میں نہیں دلِ پریشاں یاد آئی تجلیِ سرِ طورآنکھوں کے تلے ہے نور ہی نور یا رب یہ کدھر سے چاند نکلااُٹھا ہے نقاب کس کے رُخ کا کس چاند کی چاندنی کھِلی ہےیہ کس سے میری نظر ملی ہے ہے پیشِ نگاہ جلوہ کس کایا رب یہ کہاں خیال پہنچا آیا ہوں میں کس کی رہ گزر میںبجلی سی چمک گئی نظر میں آنکھوں میں بسا ہے کس کا عالمیاد آنے لگا ہے کس کا عالم اب میں دلِ مضطرب سنبھالوںیا دید کی حسرتیں نکالوں اللہ! یہ کس کی انجمن ہےدنیا میں بہشت کا چمن ہے ہر چیز یہاں کی دل رُبا ہےجو ہے وہ ادھر ہی دیکھتا ہے شاہانِ زمانہ آ رہے ہیںبستر اپنے جما رہے ہیں پروانوں نے انجمن کو چھوڑابلبل نے چمن سے منہ کو موڑا ہے سرو سے آج دُور قمریآئینوں کو چھوڑ آئی طوطی عالم کی جھکی ہوئی ہے گردنپھیلے ہیں ہزاروں دست و دامن مظلوم سنا رہے ہیں فریادہے لائقِ لطف حالِ ناشاد بے داد و ستم کی داد دیجیےلل۔۔۔

مزید

اے ساقیِ مہ لقا کہاں ہے

اے ساقیِ مہ لقا کہاں ہےمے خوار کے دل رُبا کہاں ہے بڑھ آئی ہیں لب تک آرزوئیںآنکھوں کو ہیں مَے کی جستجوئیں محتاج کو بھی کوئی پیالہداتا کرے تیرا بول بالا ہیں آج بڑھے ہوئے اِرادےلا منہ سے کوئی سبُو لگا دے سر میں ہیں خمار سے جو چکرپھرتا ہے نظر میں دَورِ ساغر دے مجھ کو وہ ساغرِ لبالببس جائیں مہک سے جان و قالب بُو زخم جگر کے دیں جو انگورہوں اہلِ زمانہ نشہ میں چُور کیف آنکھوں میں دل میں نور آئیںلہراتے ہوئے سُرور آئیں جوبن پہ اَداے بے خودی ہوبے ہوش فداے بے خودی ہو کچھ ابرو ہوا پہ تو نظر کرہاں کشتیِ مے کا کھول لنگر مے خوار ہیں بے قرار ساقیبیڑے کو لگا دے پار ساقی مے تاک رہے ہیں دیدۂ وادیوانہ ہے دل اسی پری کا منہ شیشوں کے جلد کھول ساقیقُلْقُل کے سنا دے بول ساقی یہ بات ہے سخت حیرت انگیزپُنْبَہ سے رُکی ہے آتشِ تیز جب تک نہ وہاں شیشہ ہو واہو وصف شراب سے خبر کیا تا مرد سخن نگفت۔۔۔

مزید

تحفہ‘ کہ ہے گوہر لآلی

تحفہ‘ کہ ہے گوہر لآلیفرماتے ہیں اس میں یوں معالی جب زیب زماں ہوئے وہ سرورتھی ساٹھ برس کی عمر مادر یہ بات نہیں کسی پہ مخفییہ عمر ہے عمرِ نا اُمیدی اس اَمر سے ہم کو کیا عجب ہومولود کی شان کو تو دیکھو نومید کے درد کی دوا ہےمایوس دلوں کا آسرا ہے کیا کیجیے بیان دستگیریہے جوش پہ شانِ دستگیری گرتے ہوؤں کو کہیں سنبھالاڈوبے ہوؤں کو کہیں نکالا سب داغ الم مٹا دیے ہیںبیٹھے ہوئے دل اُٹھا دیے ہیں نومید دلوں کی ٹیک ہے وہامداد میں آج ایک ہے وہ یاوَر جو نصیب ہے ہماراقسمت سے ملا ہے کیا سہارا طوفانِ اَلم سے ہم کو کیا باکہے ہاتھ میں کس کا دامنِ پاک آفت کا ہجوم کیا بلا ہےکس ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے بالفرض اگر غلامِ سرکاردریاے الم میں ہو گرفتار خود بحر ہو اس خیال میں گُمدُکھ دے نہ اسے میرا تلاطُم سوچے یہی سیل کی روانیپھر جائے نہ آبرو پہ پانی طوفان ہو اس قلق میں بے تابموجیں بنیں ماہی۔۔۔

مزید

مولانا عبدِ حق محدث

مولانا عبدِ حق محدثوہ سرورِ انبیا کے وارث ہے اُن کی کتاب پاک ’اخبار‘تحریر ہے اس میں ذکرِ اخیار مرقوم ہے اس میں یہ روایتچمکا جو وہ ماہِ قادریت آیا رمضان کا زمانہروزوں کا ہوا جہاں میں چرچا کی شہرِ صیام کی یہ توقیردن میں نہ پیا حضور نے شِیر گو عالمِ شِیر خوارگی تھاپر پاسِ شریعتِ نبی تھا جب تک نہ ہو پیروِ شریعتکیا جانے حقیقتِ طریقت جو راہ نہ پوچھے مصطفی سےکس طرح وہ جا ملے خدا سے جس شخص نے راستہ کو چھوڑامنزل کی طرف سے منہ کو موڑا جو آپ ہی راہ گُم کیے ہوکیا راہ بتائے وہ کسی کو خود گم سے کوئی پتا نہ پوچھےگمراہ سے راستہ نہ پوچھے رہبر کی جو اقتدا نہ بھولاوہ بھول کے راستہ نہ بھولا وسائلِ بخشش۔۔۔

مزید

فرماتے ہیں ’تحفہ‘ میں معالی

فرماتے ہیں ’تحفہ‘ میں معالیہیں ابن حضور پاک(۱) راوی فرماتے ہیں ابن مصطفی(۲) یہ بچپن کا ہے میرے ماجرا یہ طفلی میں جو چاہتا کبھی جیاطفال میں ہوں شریک بازی دیتا کوئی غیب سے یکایکآواز اِلَیَّ یَا مُبَارَک (۳) سن کر یہ صدا جو خوف آتامیں گود میں والدہ کی جاتا تھی پہلے جو یہ صداے عشرتسنتا ہوں اب اُس کو وقتِ خلوت کچھ تو نے سنا حسنؔ یہ کیا تھایہ کون اُنہیں بلا رہا تھا ہاں کیوں نہ ہوں وہ کمال محبوباللہ کو ہے جمالِ محبوب کیوں کر ہو ثناے خوب رویاںقربان اَداے خوب رویاںـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ(۱) شیخ عبدالرزاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ۲۱ منہ(۲) مراد است از ذات پاک حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ۔۲۱منہ(۳) یعنی اے میرے مالک! میری طرف آ۔ جیلاں میں طلب کے ساتھ یہ کدمعراج میں اُدْنُ یَا مُحَمَّدْ مژدہ ہو تجھے مرے دل زارتو بھی ہے انہیں کا کفش بردار کیا ظلمتِ گور۔۔۔

مزید

فرماتے ہیں شیخ عبدالرزاق

فرماتے ہیں شیخ عبدالرزاقفرخندہ سیر ستودہ اخلاق پوچھا یہ جناب سے کسی نےکب خود کو ولی حضور سمجھے؟ فرمایا کہ دس برس کے تھے ہمجاتے تھے جو پڑھنے کے لیے ہم پہنچانے کے واسطے فرشتے ٔمکتب کو ہمارے ساتھ جاتے جب مدرسہ تک پہنچتے تھے ہملڑکوں سے یہ کہتے تھے وہ اُس دم محبوبِ خدا کے بیٹھنے کواِطفال جگہ فراخ کر دو(۱) ایک شخص کو ایک روز دیکھادیکھا تھا نہ اس سے پہلے اصلاَ اُس نے یہ کسی مَلک سے پوچھاکچھ مجھ کو بتاؤ حال اِن کا یہ کون صبّی ہیں باوجاہتسرکار میں جن کی ہے یہ عزتــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ(۱) تحفۃ القادریہ(فارسی) ، صفحہ18 پر ہے ، اَفْسَحُوْا لِوَلِیِّ اللّٰہِ یعنی اُٹھو اور خدا کے ولی کو جگہ دو۔قادری بولا کہ ولی ہیں اولیا سےتوقیر یہ پائیں گے خدا سے بے تبع عطا عطا کریں گےبے پردہ لقا عطا کریں گے تمکیں انہیں بے حجاب دیں گےجو دیں گے وہ بے حساب دیں گے حاصل ہو انہی۔۔۔

مزید

دایہ ہوئیں اک روز حاضر

دایہ ہوئیں ایک روز حاضراور عرض یہ کی کہ عبدِ قادِر بچپن میں تو اُڑ کے گود سے تمہو جاتے تھے آفتاب میں گم امکان میں ہے یہ حال اب بھیکر سکتے ہو یہ کمال اب بھی ارشاد ہوا بخوش بیانیوہ عہد تھا عہدِ ناتُوانی اُس وقت ہم صغیر سِنْ تھےکمزوری و ضُعف کے وہ دن تھے طاقت تھی جو ہم میں مہر سے کمچھپ جاتے تھے آفتاب میں ہم اب ایسے ہزار مہر آئیںگُم ہم میں ہوں پھر پتا نہ پائیں صدقے ترے اے جمال والےقربان تری تجلیوں کے تو رُخ سے اگر اُٹھا دے پردےہر ذرّہ کو آفتاب کر دے وہ حسن دیا تجھے خدا نےمحبوب کیا تجھے خدا نے ہر جلوہ بہار گلشنِ نورہر عکس طرازِ دامنِ نور تو نورِ جنابِ کبریا ہےتو چشم و چراغِ مصطفی ہے کہتی ہے یہ تیرے رُخ کی تنویرمیں سُورۂ نور کی ہوں تفسیر اے دونوں جہان کے اجالےتاریکیِ قبر سے بچا لے میں داغِ گناہ کہاں چھپاؤںیہ رُوے سیاہ کسے دکھاؤں ظلمت ہو بیان کیا گناہ کیچھائی ہوئی ہے گھٹا ۔۔۔

مزید

منقول ہے تحفہ میں روایت

منقول ہے ’تحفہ‘ میں روایتبچپن میں ہوا یہ قصدِ حضرت کھیتی کو کریں وسیلۂ رزقمسنون ہے کسبِ حیلۂ رزق جس دن یہ خیال شاہ کو آیالکھتے ہیں وہ روز عرفہ کا تھا نر گاؤ کو لے چلے جو آقامنہ پھیر اس طرح وہ بولا یہ حکم نہ آپ کو دیا ہےمخلوق نہ اس لیے کیا ہے(۱) سن کر یہ کلام ڈر گئے آپگھر آئے تو سقف پر گئے آپ وہ نیّرِ دیں جو بام پر آئےحاجی عرفات میں نظر آئے سبحان اللہ اے تیری شانیہ بام کہاں، کہاں وہ میدان صدہا منزل کا فاصلہ تھایاں پاؤں تلے کا ماجرا تھا ہاں چاند ہیں بامِ آسماں ہےگردُوں سے قمر کو سب عیاں ہے یہ دیکھ کر آئے پیشِ مادرگویا ہوئے اس طرح سے سرور امی مجھے اِذن کی ہو اِمداداب کارِ خدا میں کیجیے آزاد بغداد کو جاؤں علم سیکھوںاللہ کے نیک بندے دیکھوں مادر نے سبب جو اس کا پوچھادیکھا تھا جو کچھ وہ کہہ سنایا وہ روئیں، اُٹھیں، گئیں، پھر آئیںمیراثِ پدر جو تھی وہ لائ۔۔۔

مزید

منقول ہے قول شیخ عمراں

منقول ہے قول شیخ عمراں فرماتے ہیں اس طرح وہ ذیشاں اک دن میں گیا حضور سرکاراور عرض یہ کی کہ شاہِ ابرار گر کوئی با ادعاے نسبتکہتا ہو کہ ہوں مرید حضرت واقع میں نہ کی ہو بیعت اُس نےپائی نہ ہو یہ کرامت اُس نے خرقہ نہ کیا ہو یاں سے حاصل کیا وہ بھی مریدوں میں ہے داخل گویا ہوئے یوں خدا کے محبوبجو آپ کو ہم سے کر دے منسوب مقبول کرے خداے برترہوں عفو گناہ اس کے یکسر ہو گرچہ َاسیرِ دامِ عصیاںہے داخلِ زمرۂ مریداں (۱) ہاں مژدہ ہو بہرِ قادریاںہے جوش پہ بحر فیضِ احساں دیکھے تو کوئی حسنؔ کہاں ہے وہ وقفِ غم و محن کہاں ہے کہہ دو کہ گئی اَلم کی ساعتسرکار لٹا رہے ہیں دولت سلطان ہے بر سرِ عطا آدامن پھیلائے دوڑتا آ کیوں کوہِ اَلم تجھے دبائےکیوں کاوِشِ غم تجھے ستائے سرکارِ کریم ہے یہ درباردربارِ کریم ہے دُربار جھوٹوں بھی جو ہو غلام کوئیاُس کا بھی رُکے نہ کام کوئی رد کرنے کا یاں نہیں ہے معمولہی۔۔۔

مزید

اے دل یہ بیاں ہے قابل سیر

اے دل یہ بیاں ہے قابل سیرفرماتے ہیں حضرت ابوالخیر ہیں اور میرے ساتھ کچھ مکرمحاضر تھے حضورِ غوثِ اعظم فرمانے لگے جنابِ والامقبول حضور حق تعالیٰ ہم آج کہ بر سرِ عطا ہیںاور مظہرِ رحمتِ خدا ہیں جو کچھ مانگو عطا کریں گےحاجت سب کی روا کریں گے سن کر یہ ابو سعید اُٹھےیوں پیش جنابِ شیخ اُٹھے یہ خواہش دل ہے تاجدار آجاِمداد ہو ترک اختیار آج یعنی کہ فقط یہ چاہتا ہوںمیں اپنی طرف سے کچھ نہ چاہوں پھر حضرت ابن قاید اُٹھ کر گویا ہوئے اس طرح کہ سرور ہے میری یہی مراد و حاجتپاؤں میں مجاہدہ کی قوت بزاز عمر نے عرض کی یہ یا شاہ ہے مطلب دلی یہ ہو خوفِ خدا مجھے عنایت اور صدق و صفا عطا ہو حضرت پھر بولے حَسَن کہ شاہِ عالم یہ حال میرا فزوں ہو ہر دم بولے یہ جمیل مجھ کو حضرت حفظِ اوقات کی ہے حاجت پھر بوالبرکات نے کہا یوں محبوب ہو عشق مانگتا ہوں پھر میں نے یہ عرض کی کہ سرکار بندہ کو وہ معرفت ہے درکار۔۔۔

مزید

اللہ برائے غوث اعظم

اﷲ! برائے غوث الاعظمدے مجھ کو ولاے غوث الاعظم دیدارِ خدا تجھے مبارک اے محوِ لقاے غوث الاعظم وہ کون کریم صاحبِ جُود میں کون گداے غوث الاعظم سُوکھی ہوئی کھتیاں ہری کر اے ابرِ سخاے غوث الاعظم اُمیدیں نصیب، مشکلیں حل قربان عطاے غوث الاعظم کیا تیزیِ مہرِ حشر سے خوف ہیں زیرِ لواے غوث الاعظم وہ اور ہیں جن کو کہیے محتاج ہم تو ہیں گداے غوث الاعظم ہیں جانبِ نالۂ غریباں گوشِ شنواے غوث الاعظم کیوں ہم کو ستائے نارِ دوزخ کیوں رد ہو دعاے غوث الاعظم بیگانے بھی ہو گئے یگانے دَل کش ہے اداے غوث الاعظم آنکھوں میں ہے نور کی تجلی پھیلی ہے صباے غوث الاعظم جو دم میں غنی کرے گدا کو وہ کیا ہے عطاے غوث الاعظم کیوں حشر کے دن ہو فاش پردہ ہیں زیرِ قباے غوث الاعظم آئینۂ روئے خوبرویاں نقشِ کفِ پاے غوث الاعظم اے دل نہ ڈر ان بلائوں سے اب وہ آئی صداے غوث الاعظم اے غم جو ستائے اب تو جانوں لے دیکھ وہ آئ۔۔۔

مزید