/ Thursday, 13 March,2025


تحفہ‘ کہ ہے گوہر لآلی





تحفہ‘ کہ ہے گوہر لآلی
فرماتے ہیں اس میں یوں معالی

جب زیب زماں ہوئے وہ سرور
تھی ساٹھ برس کی عمر مادر

یہ بات نہیں کسی پہ مخفی
یہ عمر ہے عمرِ نا اُمیدی

اس اَمر سے ہم کو کیا عجب ہو
مولود کی شان کو تو دیکھو

نومید کے درد کی دوا ہے
مایوس دلوں کا آسرا ہے

کیا کیجیے بیان دستگیری
ہے جوش پہ شانِ دستگیری

گرتے ہوؤں کو کہیں سنبھالا
ڈوبے ہوؤں کو کہیں نکالا

سب داغ الم مٹا دیے ہیں
بیٹھے ہوئے دل اُٹھا دیے ہیں

نومید دلوں کی ٹیک ہے وہ
امداد میں آج ایک ہے وہ

یاوَر جو نصیب ہے ہمارا
قسمت سے ملا ہے کیا سہارا

طوفانِ اَلم سے ہم کو کیا باک
ہے ہاتھ میں کس کا دامنِ پاک

آفت کا ہجوم کیا بلا ہے
کس ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے

بالفرض اگر غلامِ سرکار
دریاے الم میں ہو گرفتار

خود بحر ہو اس خیال میں گُم
دُکھ دے نہ اسے میرا تلاطُم

سوچے یہی سیل کی روانی
پھر جائے نہ آبرو پہ پانی

طوفان ہو اس قلق میں بے تاب
موجیں بنیں ماہیانِ بے آب

گرداب ہو گرد پھر کے صدقے
ساحل لبِ خشک سے دعا دے

ہو چشمِ حباب اشک سے تر
ہر موج کہے یہ ہاتھ اُٹھا کر

رکھ لے میری اے کریم تُو لاج
غیرت سے نہ ڈوبنا پڑے آج

وسائلِ بخشش