/ Friday, 14 March,2025


منقول ہے تحفہ میں روایت






منقول ہے ’تحفہ‘ میں روایت
بچپن میں ہوا یہ قصدِ حضرت

کھیتی کو کریں وسیلۂ رزق
مسنون ہے کسبِ حیلۂ رزق

جس دن یہ خیال شاہ کو آیا
لکھتے ہیں وہ روز عرفہ کا تھا

نر گاؤ کو لے چلے جو آقا
منہ پھیر اس طرح وہ بولا

یہ حکم نہ آپ کو دیا ہے
مخلوق نہ اس لیے کیا ہے(۱)

سن کر یہ کلام ڈر گئے آپ
گھر آئے تو سقف پر گئے آپ

وہ نیّرِ دیں جو بام پر آئے
حاجی عرفات میں نظر آئے

سبحان اللہ اے تیری شان
یہ بام کہاں، کہاں وہ میدان

صدہا منزل کا فاصلہ تھا
یاں پاؤں تلے کا ماجرا تھا

ہاں چاند ہیں بامِ آسماں ہے
گردُوں سے قمر کو سب عیاں ہے

یہ دیکھ کر آئے پیشِ مادر
گویا ہوئے اس طرح سے سرور

امی مجھے اِذن کی ہو اِمداد
اب کارِ خدا میں کیجیے آزاد

بغداد کو جاؤں علم سیکھوں
اللہ کے نیک بندے دیکھوں

مادر نے سبب جو اس کا پوچھا
دیکھا تھا جو کچھ وہ کہہ سنایا

وہ روئیں، اُٹھیں، گئیں، پھر آئیں
میراثِ پدر جو تھی وہ لائیں

وارثِ پدرِ حضورِ عالی
دینار شمار میں تھے اَسّی

چالیس اُن میں سے شاہ نے پائے
چالیس برادرِ دوم نے

دینار وہ اُمّ مشفقہ نے
جامہ میں سئیے بغل کے نیچے

پھر عہد لیا کہ راستی کو
ہر حال میں اپنے ساتھ رکھو

پھر بہر سفر ملی اجازت
باہر آئیں برائے رخصت

اِرشاد ہوا برائے یزداں
کرتی ہوں میں تجھ سے قطع اے جاں

اب تیری یہ پیاری پیاری صورت
آئے گی نظر نہ تا قیامت

جیلاں سے چلا وہ شاہ ذی جاہ
اک چھوٹے سے قافلہ کے ہمراہ

ہمدان سے جو لوگ باہر آئے
قزاق انہوں نے ساٹھ پائے

لُوٹا، مارا، کیا گرفتار
شاہ کو نہ دیا کسی نے آزار

اک شخص ادھر بھی ہو کے نکلا
پوچھا کہ تمہارے پاس ہے کیا

مولیٰ نے کیا یہ سُن کے اظہار
جامہ میں سلے ہوئے ہیں دینار

رہزن نے کہا، کہو! کہاں ہیں؟
فرمایا تہِ بغل نہاں ہیں

گنتی پوچھی وہ کہہ سنائی
موقع پوچھا جگہ بتائی

سُن کر یہ جواب چل دیا وہ
اس سچ کو ہنسی سمجھ لیا وہ

اک اور بھی سامنے سے گزرا
اس سے بھی یہ حال پیش آیا

وہ بھی سِرکا ہنسی سمجھ کر
چلتا ہوا دل لگی سمجھ کر

دونوں جو ملے دلوں کی صورت
کی ایک نے ایک سے حکایت

سردار کو حال جا سنایا
اُس نے انہیں بھیج کر بلایا

وہ آپ کو ساتھ لے کے پہنچے
جس ٹیلے پہ مال بانٹتے تھے

اس نے بھی کیے وہی سوالات
فرمائی حضور نے وہی بات

آخر ٹھہری کہ امتحاں ہو
اس جامہ کو چاک کر کے دیکھو

نکلے صادق کی کرتے تائید
چاکِ جیبِ سحر سے خورشید

یوسف کا قمیص تھا وہ کُرتا
تصدیق وہ چاک کیوں نہ کرتا

حیرت ہوئی اُس کو کی یہ گفتار
کیوں تم نے کیا یہ حال اظہار

فرمایا کہ ماں کی تھی نصیحت
یہ عہد لیا تھا وقتِ رُخصت

ہر حال میں راستی سے ہو کام
ہر کام میں بس اسی سے ہو کام

وہ عہد ہے صُورتِ امانت
کرتا نہیں اُس میں مَیں خیانت

سردار نے جب سُنے یہ اَحْوال
روتے روتے ہوا بُرا حال

سچوں کی تھی پُر اثر وہ تقریر
کیوں کرتی نہ دل میں گھر وہ تقریر

تاثیرِ بیاں بیاں ہو کیوں کر
دل کھینچ لیا ہے لب ہلا کر

رونے سے جو کچھ افاقہ پایا
سردار حضور سے یہ بولا

قائم رہو ماں کے عہد پر تم!
اور عہدِ خدا کو ہم کریں گُم!

کرتا ہوں میں ترک یہ معائب
ہوتا ہوں تمہارے آگے تائب

دیکھا جو یہ اُس کے ساتھیوں نے
سردار سے اس طرح وہ بولے

جب راہ زنی تھی اپنا پیشہ
سردار رہا ہے تو ہمیشہ

توبہ میں بھی ہم سے تو ہے اَقدم
یوں بھی کریں تیری پیروی ہم

تائب ہوئے، مال قافلہ کا
جس جس سے لیا تھا اس کو پھیرا

فرماتے ہیں ہاتھ پر ہمارے
کی توبہ اُنہوں نے سب سے پہلے

آقا میں بَلا میں مبتلا ہوں
شیطان کے دام میں پھنسا ہوں

اب میری مدد کو آؤ یا غوث
رہزن سے مجھے بچاؤ یا غوث

لُٹتا ہے غریب آہ سرکار
درکار ہے اک نگاہ سرکار

لُٹتا ہے میاں غلام تیرا
للہ! اِدھر بھی کوئی پھیرا

مضطر ہے بہت غلام آقا
جنگل میں ہوئی ہے شام آقا

قطاع طریق ہیں مقابل
نزدیک ہے شام دُور منزل

کیجیے میری سمت خوش خرامی
کہتے ہوئے لَا تَخَفْ غُلَامِیْ

ہو جائے شبِ اَلم کنارے
آ جاؤ کہ دن پھریں ہمارے

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) تحفۃ القادریہ(فارسی) میں ہے : یَا عَبْدَالْقَادِرِ مَا لِھٰذَا خُلِقْتَ وَ لَا بِھٰذَا اُمِرْتَ۔ قادری

وسائلِ بخشش