نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دُنیا کے ساماں میںتمھیں دُولھا بنا کر بھیجنا تھا بزمِ امکاں میں یہ رنگینی یہ شادابی کہاں گلزارِ رضواں میںہزاروں جنتیں آ کر بسی ہیں کوے جاناں میں خزاں کا کس طرح ہو دخل جنت کے گلستاں میںبہاریں بس چکی ہیں جلوۂ رنگینِ جاناں میں تم آئے روشنی پھیلی ہُوا دن کھل گئی آنکھیںاندھیرا سا اندھیرا چھا رہا تھا بزمِ اِمکاں میں تھکا ماندہ وہ ہے جو پاؤں اپنے توڑ کر بیٹھاوہی پہنچا ہوا ٹھہرا جو پہنچا کوے جاناں میں تمہارا کلمہ پڑھتا اُٹھے تم پر صدقے ہونے کوجو پائے پاک سے ٹھوکر لگا دو جسمِ بے جاں میں عجب انداز سے محبوبِ حق نے جلوہ فرمایاسُرور آنکھوں میں آیا جان دل میں نور ایماں میں فداے خار ہاے دشتِ طیبہ پھول جنت کےیہ وہ کانٹے ہیں جن کو خود جگہ دیں گل رگِ جاں میں ہر اک کی آرزو ہے پہلے مجھ کو ذبح فرمائیںتماشا کر رہے ہیں مرنے والے عیدِ قرباں میں ظہورِ پاک سے پہلے بھی صدقے۔۔۔
مزیدعجب کرم شہ والا تبار کرتے ہیںکہ نا اُمیدوں کو اُمیدوار کرتے ہیں جما کے دل میں صفیں حسرت و تمنا کینگاہِ لطف کا ہم انتظار کرتے ہیں مجھے فسردگئ بخت کا اَلم کیا ہووہ ایک دم میں خزاں کو بہار کرتے ہیں خدا سگانِ نبی سے یہ مجھ کو سنوا دےہم اپنے کتوں میں تجھ کو شمار کرتے ہیں ملائکہ کو بھی ہیں کچھ فضیلتیں ہم پرکہ پاس رہتے ہیں طوفِ مزار کرتے ہیں جو خوش نصیب یہاں خاکِ دَر پہ بیٹھتے ہیںجلوسِ مسندِ شاہی سے عار کرتے ہیں ہمارے دل کی لگی بھی وہی بجھا دیں گےجو دم میں آگ کو باغ و بہار کرتے ہیں اشارہ کر دو تو بادِ خلاف کے جھونکےابھی ہمارے سفینے کو پار کرتے ہیں تمہارے دَر کے گداؤں کی شان عالی ہےوہ جس کو چاہتے ہیں تاجدار کرتے ہیں گدا گدا ہے گدا وہ توکیا ہی چاہے ادببڑے بڑے ترے دَر کا وقار کرتے ہیں تمام خلق کو منظور ہے رضا جن کیرضا حضور کی وہ اختیار کرتے ہیں سنا کے وصفِ رُخِ پاک عندلیب کو ہمرہینِ آ۔۔۔
مزیدسن لو میری اِلتجا اچھے میاںمیں تصدق میں فدا اَچھے میاں اب کمی کیا ہے خدا دے بندہ لےمیں گدا تم بادشا اچھے میاں دین و دنیا میں بہت اچھا رہاجو تمہارا ہو گیا اچھے میاں اس بُرے کو آپ اچھا کیجیےآپ اچھے میں بُرا اچھے میاں ایسے اچھے کا بُرا ہوں میں بُراجن کو اچھوں نے کہا اچھے میاں میں حوالے کر چکا ہوں آپ کےاپنا سب اچھا بُرا اچھے میاں آپ جانیں مجھ کو اِس کی فکر کیامیں بُرا ہوں یا بھلا اچھے میاں مجھ بُرے کے کیسے اچھے ہیں نصیبمیں بُرا ہوں آپ کا اچھے میاں اپنے منگتا کو بُلا کر بھیک دیاے میں قربانِ عطا اچھے میاں مشکلیں آسان فرما دیجیےاے مرے مشکل کشا اچھے میاں میری جھولی بھر دو دستِ فیض سےحاضرِ دَر ہے گدا اچھے میاں دَم قدم کی خیر منگتا ہوں ترادَم قدم کی خیر لا اچھے میاں جاں بلب ہوں دردِ عصیاں سے حضورجاں بلب کو دو شفا اچھے میاں دشمنوں کی ہے چڑھائی الغیاثہے مدد کا وقت یا اچھے میاں نف۔۔۔
مزیددل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہوپھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو آستانے پہ ترے سر ہو اَجل آئی ہواَور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو خاک پامال غریباں کو نہ کیوں زندہ کرےجس کے دامن کی ہوا بادِ مسیحائی ہو اُس کی قسمت پہ فدا تخت شہی کی راحتخاکِ طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو تاج والوں کی یہ خواہش ہے کہ اُن کے دَر پرہم کو حاصل شرفِ ناصیہ فرسائی ہو اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کووہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتےکب وہ چاہیں گے مری حشر میں رُسوائی ہو کیوں کریں بزمِ شبستانِ جناں کی خواہشجلوۂ یار جو شمع شبِ تنہائی ہو خلعتِ مغفرت اُس کے لیے رحمت لائےجس نے خاکِ درِ شہ جاے کفن پائی ہو یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نہ بنےایسے یکتا کے لیے ایسی ہی یکتائی ہو ذکر خدّام نہیں مجھ کو بتا دیں دشمنکوئی نعمت بھی کسی اور سے گر پائی ہو جب اُٹھے دستِ اَجل سے مری ۔۔۔
مزیداے راحتِ جاں جو ترے قدموں سے لگا ہوکیوں خاک بسر صورتِ نقشِ کفِ پَا ہو ایسا نہ کوئی ہے نہ کوئی ہو نہ ہوا ہوسایہ بھی تو اک مثل ہے پھر کیوں نہ جدا ہو اﷲ کا محبوب بنے جو تمھیں چاہےاُس کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو دل سب سے اُٹھا کر جو پڑا ہو ترے دَر پراُفتادِ دو عالم سے تعلق اُسے کیا ہو اُس ہاتھ سے دل سوختہ جانوں کے ہرے کرجس سے رطبِ سوختہ کی نشوونما ہو ہر سانس سے نکلے گل فردوس کی خوشبوگر عکس فگن دل میں وہ نقشِ کفِ پَا ہو اُس دَر کی طرف اس لیے میزاب کا منہ ہےوہ قبلۂ کونین ہے یہ قبلہ نما ہو بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبتمِٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو یہ میری سمجھ میں کبھی آ ہی نہیں سکتاایمان مجھے پھیرنے کو تو نے دیا ہو اُس گھر سے عیاں نورِ الٰہی ہو ہمیشہتم جس میں گھڑی بھر کے لیے جلوہ نما ہو مقبول ہیں اَبرو کے اشارہ سے دعائیںکب تیر کماندارِ نبوت کا خطا ہو ہو سلسلہ اُلفت۔۔۔
مزیدتم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہواﷲ کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو یہ کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو یہ عطا ہووہ دو کہ ہمیشہ مرے گھر بھر کا بھلا ہو جس بات میں مشہورِ جہاں ہے لبِ عیسیٰاے جانِ جہاں وہ تری ٹھوکر سے اَدا ہو ٹوٹے ہوئے دم جوش پہ طوفانِ معاصیدامن نہ ملے اُن کا تو کیا جانیے کیا ہو یوں جھک کے ملے ہم سے کمینوں سے وہ جس کواﷲ نے اپنے ہی لیے خاص کیا ہو مِٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہیجب خاک اُڑے میری مدینہ کی ہوا ہو منگتا تو ہیں منگتا کوئی شاہوں میں دکھا دےجس کو مرے سرکار سے ٹکڑا نہ ملا ہو قدرت نے اَزل میں یہ لکھا اُن کی جبیں پرجو اِن کی رِضا ہو وہی خالق کی رِضا ہو ہر وقت کرم بندہ نوازی پہ تُلا ہےکچھ کام نہیں اِس سے بُرا ہو کہ بھلا ہو سو جاں سے گنہگار کا ہو رختِ عمل چاکپردہ نہ کھلے گر ترے دامن سے بندھا ہو اَبرار نکوکار خدا کے ہیں خدا کےاُن کا ہے وہ اُن کا ہے جو بد ہو جو بُرا ہو ا۔۔۔
مزیددل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہوسینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو کیوں اپنی گلی میں وہ روادارِ صدا ہوجو بھیک لیے راہِ گدا دیکھ رہا ہو گر وقتِ اجل سر تری چوکھٹ پہ جھکا ہوجتنی ہو قضا ایک ہی سجدہ میں اَدا ہو ہمسایۂ رحمت ہے ترا سایۂ دیواررُتبہ سے تنزل کرے تو ظلِّ ہُما ہو موقوف نہیں صبح قیامت ہی پہ یہ عرضجب آنکھ کھلے سامنے تو جلوہ نما ہو دے اُس کو دمِ نزع اگر حور بھی ساغرمنہ پھیر لے جو تشنۂ دیدار ترا ہو فردوس کے باغوں سے اِدھر مل نہیں سکتاجو کوئی مدینہ کے بیاباں میں گما ہو دیکھا اُنھیں محشر میں تو رحمت نے پکاراآزاد ہے جو آپ کے دامن سے بندھا ہو آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایساخود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کا بھلا ہو ویراں ہوں جب آباد مکاں صبحِ قیامتاُجڑا ہوا دل آپ کے جلوؤں سے بسا ہو ڈھونڈا ہی کریں صدرِ قیامت کے سپاہیوہ کس کو ملے جو ترے دامن میں چھپا ہو جب دینے کو بھیک آ۔۔۔
مزیدعجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہکہ سب جنتیں ہے نثارِ مدینہ مبارک رہے عندلیبو تمھیں گلہمیں گل سے بہتر ہے خارِ مدینہ بنا شہ نشیں خسروِ دو جہاں کابیاں کیا ہو عز و وقارِ مدینہ مری خاک یا رب نہ برباد جائےپسِ مرگ کر دے غبارِ مدینہ کبھی تو معاصی کے خِرمن میں یا ربلگے آتشِ لالہ زارِ مدینہ رگِ گل کی جب نازکی دیکھتا ہوںمجھے یاد آتے ہیں خارِ مدینہ ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنیشب و روز خاکِ مزارِ مدینہ جدھر دیکھیے باغِ جنت کھلا ہےنظر میں ہیں نقش و نگارِ مدینہ رہیں اُن کے جلوے بسیں اُن کے جلوےمرا دل بنے یادگارِ مدینہ حرم ہے اسے ساحتِ ہر دو عالمجو دل ہو چکا ہے شکارِ مدینہ دو عالم میں بٹتا ہے صدقہ یہاں کاہمیں اک نہیں ریزہ خوارِ مدینہ بنا آسماں منزلِ ابنِ مریمگئے لامکاں تاجدارِ مدینہ مرادِ دل بلبلِ بے نوا دےخدایا دکھا دے بہارِ مدینہ شرف جن سے حاصل ہوا اَنبیا کووہی ہیں حسنؔ افتخارِ مدینہ ذوق۔۔۔
مزیدنہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سےاُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے تمہارے دَر کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اِک عالمگزارا سب کا ہوتا ہے اِسی محتاج خانے سے شبِ اسریٰ کے دُولھا پر نچھاور ہونے والی تھینہیں تو کیا غرض تھی اِتنی جانوں کے بنانے سے کوئی فردوس ہو یا خلد ہو ہم کو غرض مطلبلگایا اب تو بستر آپ ہی کے آستانے سے نہ کیوں اُن کی طرف اللہ سو سو پیار سے دیکھےجو اپنی آنکھیں مَلتے ہیں تمہارے آستانے سے تمہارے تو وہ اِحساں اور یہ نافرمانیاں اپنیہمیں تو شرم سی آتی ہے تم کو منہ دکھانے سے سے بہارِ خلد صدقے ہو رہی ہے روے عاشق پرکھلی جاتی ہیں کلیاں دل کی تیرے مسکرانے سے زمیں تھوڑی سی دے دے بہرِ مدفن اپنے کوچے میںلگا دے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے پلٹتا ہے جو زائر اُس سے کہتا ہے نصیب اُس کاارے غافل قضا بہتر ہے یاں سے پھر کے جانے سے بُلا لو اپنے دَر پر اب تو ہم خانہ بدوشوں ک۔۔۔
مزیدمبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہےگدائی کو زمانہ جس کے دَر پر آنے والا ہے چکوروں سے کہو ماہِ دل آرا ہے چمکنے کوخبر ذرّوں کو دو مہرِ منور آنے والا ہے فقیروں سے کہو حاضر ہوں جو مانگیں گے پائیں گےکہ سلطانِ جہاں محتاج پرور آنے والا ہے کہو پروانوں سے شمع ہدایت اب چمکتی ہےخبر دو بلبلوں کو وہ گل تر آنے والا ہے کہاں ہیں ٹوٹی اُمیدیں کہاں ہیں بے سہارا دلکہ وہ فریاد رس بیکس کا یاور آنے والا ہے ٹھکانہ بے ٹھکانوں کا سہارا بے سہاروں کاغریبوں کی مدد بیکس کا یاور آنے والا ہے بر آئیں گی مرادیں حسرتیں ہو جائیں گی پوریکہ وہ مختارِ کل عالم کا سرور آنے والا ہے مبارک درد مندوں کو ہو مژدہ بیقراروں کوقرارِ دل شکیبِ جانِ مضطر آنے والا ہے گنہ گاروں نہ ہو مایوس تم اپنی رہائی سےمدد کو وہ شفیعِ روزِ محشر آنے والا ہے جھکا لائے نہ کیوں تاروں کو شوقِ جلوۂ عارضکہ وہ ماہِ دل آرا اب زمیں پر آن۔۔۔
مزیدجائے گی ہنستی ہوئی خلد میں اُمت اُن کیکب گوارا ہوئی اﷲ کو رِقّت اُن کی ابھی پھٹتے ہیں جگر ہم سے گنہگاروں کےٹوٹے دل کا جو سہارا نہ ہو رحمت اُن کی دیکھ آنکھیں نہ دکھا مہرِ قیامت ہم کوجن کے سایہ میں ہیں ہم دیکھی ہے صورت اُن کی حُسنِ یوسف دمِ عیسیٰ پہ نہیں کچھ موقوفجس نے جو پایا ہے پایا ہے بدولت اُن کی اُن کا کہنا نہ کریں جب بھی وہ ہم کو چاہیںسرکشی اپنی تو یہ اور وہ چاہت اُن کی پار ہو جائے گا اک آن میں بیڑا اپناکام کر جائے گی محشر میں شفاعت اُن کی حشر میں ہم سے گنہگار پریشاں خاطرعفو رحمٰن و رحیم اور شفاعت اُن کی خاکِ دَر تیری جو چہروں پہ مَلے پھرتے ہیںکس طرح بھائے نہ اﷲ کو صورت اُن کی عاصیو کیوں غمِ محشر میں مرے جاتے ہوسنتے ہیں بندہ نوازی تو ہے عادت اُن کی جلوۂ شانِ الہٰی کی بہاریں دیکھوقد راء الحقَّ کی ہے شرح زیارت اُن کی باغِ جنت میں چلے جائیں گے بے پوچھے ہموقف ہے ہم سے مساکین ۔۔۔
مزیدہم نے تقصیر کی عادت کر لیآپ اپنے پہ قیامت کر لی میں چلا ہی تھا مجھے روک لیامرے اﷲ نے رحمت کر لی ذکر شہ سن کے ہوئے بزم میں محوہم نے جلوت میں بھی خلوت کر لی نارِ دوزخ سے بچایا مجھ کومرے پیارے بڑی رحمت کر لی بال بیکا نہ ہوا پھر اُس کاآپ نے جس کی حمایت کر لی رکھ دیا سر قدمِ جاناں پراپنے بچنے کی یہ صورت کر لی نعمتیں ہم کو کھلائیں اور آپجو کی روٹی پہ قناعت کر لی اُس سے فردوس کی صورت پوچھوجس نے طیبہ کی زیارت کر لی شانِ رحمت کے تصدق جاؤںمجھ سے عاصی کی حمایت کر لی فاقہ مستوں کو شکم سیر کیاآپ فاقہ پہ قناعت کر لی اے حسنؔ کام کا کچھ کام کیایا یوہیں ختم پہ رُخصت کر لی ذوقِ نعت۔۔۔
مزید