/ Thursday, 13 March,2025


استادِ زمن حضرت مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی رحمتہ اللہ تعا لٰی علیہ   (121)





کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو برخلاف

کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو بر خلافاُن کی مدد رہے تو کرے کیا اَثر خلاف اُن کا عدو اسیرِ بَلاے نفاق ہےاُس کی زبان و دل میں رہے عمر بھر خلاف کرتا ہے ذکرِ پاک سے نجدی مخالفتکم بخت بد نصیب کی قسمت ہے بر خلاف اُن کی وجاہتوں میں کمی ہو محال ہےبالفرض اک زمانہ ہو اُن سے اگر خلاف اُٹھوں جو خوابِ مرگ سے آئے شمیم یاریا ربّ نہ صبحِ حشر ہو بادِ سحر خلاف قربان جاؤں رحمتِ عاجز نواز پرہوتی نہیں غریب سے اُن کی نظر خلاف شانِ کرم کسی سے عوض چاہتی نہیںلاکھ اِمتثالِ امر میں دل ہو ادھر خلاف کیا رحمتیں ہیں لطف میں پھر بھی کمی نہیںکرتے رہے ہیں حکم سے ہم عمر بھر خلاف تعمیل حکمِ حق کا حسنؔ ہے اگر خیالارشادِ پاک سرورِ دیں کا نہ کر خلاف ذوقِ نعت ۔۔۔

مزید

رحمت نہ کس طرح ہو گنہگارکی طرف

رحمت نہ کس طرح ہو گنہگار کی طرفرحمٰن خود ہے میرے طرفدار کی طرف جانِ جناں ہے دشتِ مدینہ تری بہاربُلبل نہ جائے گی کبھی گلزار کی طرف انکار کا وقوع تو کیا ہو کریم سےمائل ہوا نہ دل کبھی اِنکار کی طرف جنت بھی لینے آئے تو چھوڑیں نہ یہ گلیمنہ پھیر بیٹھیں ہم تری دیوار کی طرف منہ اُس کا دیکھتی ہیں بہاریں بہشت کیجس کی نگاہ ہے ترے رُخسار کی طرف جاں بخشیاں مسیح کو حیرت میں ڈالتیںچُپ بیٹھے دیکھتے تری رفتار کی طرف محشر میں آفتاب اُدھر گرم اور اِدھرآنکھیں لگی ہیں دامنِ دلدار کی طرف پھیلا ہوا ہے ہاتھ ترے دَر کے سامنےگردن جھکی ہوئی تری دیوار کی طرف گو بے شمار جرم ہوں گو بے عدد گناہکچھ غم نہیں جو تم ہو گنہگار کی طرف یوں مجھ کو موت آئے تو کیا پوچھنا مرامیں خاک پر نگاہ دَرِ یار کی طرف کعبے کے صدقے دل کی تمنا مگر یہ ہےمرنے کے وقت منہ ہو دَرِ یار کی طرف دے جاتے ہیں مراد جہاں مانگیے وہاںمنہ ہون۔۔۔

مزید

طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شانِ جمال

طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شان جمال اس طرف بھی اک نظر اے برق تابان جمال اک نظر بے پردہ ہو جائے جو لمعان جمال مر دم دیدہ کی آنکھوں پر جو احسان جمال جل گیا جس راہ میں سرد خرامان جمال نقش پا سے کھل گئے لاکھوں گلستان جمال ہے شب غم اور گرفتاران ہجران جمال مہر کر ذرّوں پہ اے خورشید تابان جمال کر گیا آخر لباسِ لالہ و گل میں ظہور خاک میں ملتا نہیں خون شہیدانِ جمال ذرّہ ذرّہ خاک کا ہو جائے گا خورشید حشر قبر میں لے جائیں گے عاشق جو ارمانِ جمال ہو گیا شاداب عالم آ گئی فصل بہار اٹھ گیا پردہ کھلا باب گلستان جمال جلوۂ موئے محاسن چہرۂ انور کے گرد آبنوسی رحل پررکھا ہے قرآنِ جمال اُس کے جلوے سے نہ کیوں کافور ہوں ظلمات کفر پیش گاہِ نور سے آیا ہے فرمانِ جمال کیا کہوں کتنا ہے ان کی رہ گزر میں جوش حسن آشکارا ذرّہ ذرّہ سے ہے میدانِ جمال ذرّۂ دَر سے ترے ہم سفر ہوں کیا مہر و قمر یہ ہے سلطان جمال اور و۔۔۔

مزید

بزمِ محشر منعقد کر مہرسامانِ جمال

بزم محشر منعقد کر مہر سامان جمال دل کے آئینوں کو مدت سے ہے ارمان جمال اپنا صدقہ بانٹتا آتا ہے سلطان جمال جھولیاں پھیلائے دوڑیں بے نوایان جمال جس طرح سے عاشقوں کا دل ہے قربان جمال ہے یونہی قربان تیری شکل پر جان جمال بے حجابانہ دکھا دو اک نظر آن جمال صدقے ہونے کے لئے حاضر ہیں خواہان جمال تیرے ہی قامت نے چمکایا مقدر حسن کا بس اسی اِکّے سے روشن ہے شبستان جمال روح لے گی حشر تک خوشبوئے جنت کے مزے گر بسا دے گا کفن عطر گریبانِ جمال مر گئے عشاق لیکن وا ہے چشم منتظر حشر تک آنکھیں تجھے ڈھونڈیں گی اے جانِ جمال پیشگی ہی نقد جاں دیتے چلے ہیں مشتری حشر میں کھولے گا یارب کون دو مکان جمال عاشقوں کا ذکر کیا معشوق عاشق ہو گئے انجمن کی انجمن صدقے ہے اے جان جمال تیری ذُرّیت کا ہر ذرّہ نہ کیوں ہو آفتاب سر زمینِ حُسن سے نکلی ہے یہ کان جمال بزم محشر میں حسینان جہاں سب جمع ہیںپر نظر تیری طرف اٹھتی ہے۔۔۔

مزید

اے دینِ حق کے رہبر تم پر سلام ہر دم

اے دینِ حق کے رہبر تم پر سلام ہر دممیرے شفیعِ محشر تم پر سلام ہر دم اِس بے کس و حزیں پر جو کچھ گزر رہی ہےظاہر ہے سب وہ تم پر ، تم پر سلام ہر دم دُنیا و آخرت میں جب میں رہوں سلامتپیارے پڑھوں نہ کیوں کر تم پر سلام ہر دم دِل تفتگانِ فرقت پیاسے ہیں مدتوں سےہم کو بھی جامِ کوثر تم پر سلام ہر دم بندہ تمہارے دَر کا آفت میں مبتلا ہےرحم اے حبیبِ دَاور تم پر سلام ہر دم بے وارثوں کے وارث بے والیوں کے والیتسکینِ جانِ مضطر تم پر سلام ہر دم للہ اب ہماری فریاد کو پہنچئےبے حد ہے حال اَبتر تم پر سلام ہر دم جلادِ نفسِ بد سے دیجے مجھے رِہائیاب ہے گلے پہ خنجر تم پر سلام ہر دم دَریوزہ گر ہوں میں بھی ادنیٰ سا اُس گلی کالطف و کرم ہو مجھ پر تم پر سلام ہر دم کوئی نہیں ہے میرا میں کس سے داد چاہوںسلطانِ بندہ پرور تم پر سلام ہر دم غم کی گھٹائیں گھر کر آئی ہیں ہر طرف سےاے مہر ذرّہ پرور تم پر سلام ہر دم ۔۔۔

مزید

اے مدینہ کے تاجدار سلام

اے مدینہ کے تاجدار سلاماے غریبوں کے غمگسار سلام تری اک اک اَدا پر اے پیارےسَو دُرودیں فدا ہزار سلام رَبِّ سَلِّمْ کے کہنے والے پرجان کے ساتھ ہو نثار سلام میرے پیارے پہ میرے آقا پرمیری جانب سے لاکھ بار سلام میری بگڑی بنانے والے پربھیج اے میرے کِردگار سلام اُس پناہِ گناہ گاراں پریہ سلام اور کروڑ بار سلام اُس جوابِ سلام کے صدقےتا قیامت ہوں بے شمار سلام اُن کی محفل میں ساتھ لے جائیںحسرتِ جانِ بے قرار سلام پردہ میرا نہ فاش حشر میں ہواے مرے حق کے راز دار سلام وہ سلامت رہا قیامت میںپڑھ لیے جس نے دل سے چار سلام عرض کرتا ہے یہ حسنؔ تیراتجھ پہ اے خُلد کی بہار سلام ذوقِ نعت۔۔۔

مزید

ترے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالم

ترے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالمتو سلطانِ عالم ہے اے جانِ عالم یہ پیاری ادائیں یہ نیچی نگاہیںفدا جانِ عالم ہو اے جانِ عالم کسی اور کو بھی یہ دولت ملی ہےگداکس کے دَر کے ہیں شاہانِ عالم میں دَر دَر پھروں چھوڑ کر کیوں ترا دَراُٹھائے بَلا میری احسانِ عالم میں سرکارِ عالی کے قربان جاؤںبھکاری ہیں اُس دَر کے شاہانِ عالم مرے دبدبہ والے میں تیرے صدقےترے دَر کے کُتّے ہیں شاہانِ عالم تمہاری طرف ہاتھ پھیلے ہیں سب کےتمھیں پورے کرتے ہو ارمانِ عالم مجھے زندہ کر دے مجھے زندہ کر دےمرے جانِ عالم مرے جانِ عالم مسلماں مسلماں ہیں تیرے سبب سےمری جان تو ہی ہے ایمانِ عالم مرے آن والے مرے شان والےگدائی ترے دَر کی ہے شانِ عالم تُو بحرِ حقیقت تو دریاے عرفاںترا ایک قطرہ ہے عرفانِ عالم کوئی جلوہ میرے بھی روزِ سیہ پرخدا کے قمر مہرِ تابانِ عالم بس اب کچھ عنایت ہوا اب ملا کچھانھیں تکتے رہنا فقیرانِ عالم ۔۔۔

مزید

جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم

جاتے ہیں سوے مدینہ گھر سے ہمباز آئے ہندِ بد اختر سے ہم مار ڈالے بے قراری شوق کیخوش تو جب ہوں اِس دلِ مضطر سے ہم بے ٹھکانوں کا ٹھکانا ہے یہیاب کہاں جائیں تمہارے دَر سے ہم تشنگیِ حشر سے کچھ غم نہیںہیں غلامانِ شہِ کوثر سے ہم اپنے ہاتھوں میں ہے دامانِ شفیعڈر چکے بس فتنۂ محشر سے ہم نقشِ پا سے جو ہوا ہے سرفرازدل بدل ڈالیں گے اُس پتھر سے ہم گردن تسلیم خم کرنے کے ساتھپھینکتے ہیں بارِ عصیاں سر سے ہم گور کی شب تار ہے پر خوف کیالَو لگائے ہیں رُخِ انور سے ہم دیکھ لینا سب مرادیں مل گئیںجب لپٹ کر روئے اُن کے دَر سے ہم کیا بندھا ہم کو خد اجانے خیالآنکھیں ملتے ہیں جو ہر پتھر سے ہم جانے والے چل دیئے کب کے حسنؔپھر رہے ہیں ایک بس مضطر سے ہم ذوقِ نعت ۔۔۔

مزید

اسیروں کے مشکل کشا غوثِ اعظم

اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظمفقیروں کے حاجت رَوا غوث اعظم گھرا ہے بَلاؤں میں بندہ تمہارامدد کے لیے آؤ یا غوث اعظم ترے ہاتھ میں ہاتھ میں نے دیا ہےترے ہاتھ ہے لاج یا غوث اعظم مریدوں کو خطرہ نہیں بحرِ غم سےکہ بیڑے کے ہیں ناخدا غوث اعظم تمھیں دُکھ سنو اپنے آفت زدوں کاتمھیں درد کی دو دوا غوث اعظم بھنور میں پھنسا ہے ہمارا سفینہبچا غوث اعظم بچا غوث اعظم جو دکھ بھر رہا ہوں جو غم سہ رہا ہوںکہوں کس سے تیرے سوا غوث اعظم زمانے کے دُکھ درد کی رنج و غم کیترے ہاتھ میں ہے دوا غوث اعظم اگر سلطنت کی ہوس ہو فقیروکہو شیئاً ﷲیا غوث اعظم نکالا ہے پہلے تو ڈوبے ہوؤں کواور اب ڈوبتوں کو بچا غوث اعظم جسے خلق کہتی ہے پیارا خدا کااُسی کا ہے تو لاڈلا غوث اعظم کیا غورجب گیارھویں بارھویں میںمعمہ یہ ہم پر کھلا غوث اعظم تمھیں وصلِ بے فصل ہے شاہِ دیں سےدیا حق نے یہ مرتبہ غوث اعظم پھنسا ہے تباہی میں بیڑا ہمارا۔۔۔

مزید

کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں

کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیںلیکن اے دل فرقتِ کوے نبی اچھی نہیں رحم کی سرکار میں پُرسش ہے ایسوں کی بہتاے دل اچھا ہے اگر حالت مری اچھی نہیں تیرہ دل کو جلوۂ ماہِ عرب درکار ہےچودھویں کے چاند تیری چاندنی اچھی نہیں کچھ خبر ہے میں بُرا ہوں کیسے اچھے کا بُرامجھ بُرے پر زاہدو طعنہ زنی اچھی نہیں اُس گلی سے دُور رہ کر کیا مریں ہم کیا جئیںآہ ایسی موت ایسی زندگی اچھی نہیں اُن کے دَر کی بھیک چھوڑیں سروری کے واسطےاُن کے دَر کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں خاک اُن کے آستانے کی منگا دے چارہ گرفکر کیا حالت اگر بیمار کی اچھی نہیں سایۂ دیوارِ جاناں میں ہو بستر خاک پرآرزوے تاج و تختِ خسروی اچھی نہیں دردِ عصیاں کی ترقی سے ہوا ہوں جاں بلبمجھ کو اچھا کیجیے حالت مری اچھی نہیں ذرّۂ طیبہ کی طلعت کے مقابل اے قمرگھٹتی بڑھتی چار دن کی چاندنی اچھی نہیں موسمِ گل کیوں دکھائے جاتے ہیں یہ سبز باغدشتِ ط۔۔۔

مزید

نگاہ لطف کے امیدوار ہم بھی ہیں

نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیںلیے ہوئے یہ دلِ بے قرار ہم بھی ہیں ہمارے دستِ تمنا کی لاج بھی رکھناترے فقیروں میں اے شہر یار ہم بھی ہیں اِدھر بھی توسنِ اقدس کے دو قدم جلوےتمہاری راہ میں مُشتِ غبار ہم بھی ہیں کھلا دو غنچۂ دل صدقہ باد دامن کااُمیدوارِ نسیمِ بہار ہم بھی ہیں تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہےپڑئے ہوئے تو سرِ رہ گزار ہم بھی ہیں جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضورتو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں یہ کس شہنشہِ والا کا صدقہ بٹتا ہےکہ خسروؤں میں پڑی ہے پکار ہم بھی ہیں ہماری بگڑی بنی اُن کے اختیار میں ہےسپرد اُنھیں کے ہیں سب کاروبار ہم بھی ہیں حسنؔ ہے جن کی سخاوت کی دُھوم عالم میںاُنھیں کے تم بھی ہو اک ریزہ خوار، ہم بھی ہیں ذوقِ نعت۔۔۔

مزید

کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیں

کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیںاپنے سرکار کے دربار کو کیوں کر دیکھیں تابِ نظارہ تو ہو ، یار کو کیوں کر دیکھیںآنکھیں ملتی نہیں دیدار کو کیوں کر دیکھیں دلِ مردہ کو ترے کوچہ میں کیوں کر لے جائیںاثرِ جلوۂ رفتار کو کیوں کر دیکھیں جن کی نظروں میں ہے صحراے مدینہ بلبلآنکھ اُٹھا کر ترے گلزار کو کیوں کر دیکھیں عوضِ عفو گنہ بکتے ہیں اِک مجمع ہےہائے ہم اپنے خریدار کو کیوں کر دیکھیں ہم گنہگار کہاں اور کہاں رؤیتِ عرشسر اُٹھا کر تری دیوار کو کیوں کر دیکھیں اور سرکار بنے ہیں تو انھیں کے دَر سےہم گدا اور کی سرکار کو کیوں کر دیکھیں دستِ صیاد سے آہو کو چھڑائیں جو کریمدامِ غم میں وہ گرفتار کو کیوں کر دیکھیں تابِ دیدار کا دعویٰ ہے جنھیں سامنے آئیںدیکھتے ہیں ترے رُخسار کو کیوں کر دیکھیں دیکھیے کوچۂ محبوب میں کیوں کر پہنچیںدیکھیے جلوۂ دیدار کو کیوں کر دیکھیں اہل کارانِ سقر اور اِرادہ سے حس۔۔۔

مزید