/ Thursday, 13 March,2025


استادِ زمن حضرت مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی رحمتہ اللہ تعا لٰی علیہ   (121)





سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہے

سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہےنسیمِ روح پرور سے مشامِ جاں معطر ہے قریب طیبہ بخشے ہیں تصور نے مزے کیا کیامرا دل ہے مدینہ میں مدینہ دل کے اندر ہے ملائک سر جہاں اپنا جھجکتے ڈرتے رکھتے ہیںقدم اُن کے گنہگاروں کا ایسی سر زمیں پر ہے ارے او سونے والے دِل ارے اوسونے والے دِلسحر ہے جاگ غافل دیکھ تو عالم منور ہے سہانی طرز کی طلعت نرالی رنگ کی نکہتنسیمِ صبح سے مہکا ہوا پُر نور منظر ہے تعالیٰ اﷲ یہ شادابی یہ رنگینی تعالیٰ اﷲبہارِ ہشت جنت دشتِ طیبہ پر نچھاور ہے ہوائیں آ رہی ہیں کوچۂ پُر نورِ جاناں کیکھلی جاتی ہیں کلیاں تازگی دل کو میسر ہے منور چشمِ زائر ہے جمالِ عرشِ اعظم سےنظر میں سبز قُبّہ کی تجلی جلوہ گستر ہے یہ رفعت درگہِ عرش آستاں کے قرب سے پائیکہ ہر ہر سانس ہر ہر گام پر معراجِ دیگر ہے محرم کی نویں تاریخ بارہ منزلیں کر کےوہاں پہنچے وہ گھر دیکھا جو گھر اﷲ کا گھرہے نہ پوچھو ہم کہ۔۔۔

مزید

بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزارِ جنت کی

بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزارِ جنت کیسواری آنے والی ہے شہیدانِ محبت کی کھلے ہیں گل بہاروں پر ہے پھلواری جراحت کیفضا ہر زخم کی دامن سے وابستہ ہے جنت کی گلا کٹوا کے بیڑی کاٹنے آئے ہیں اُمت کیکوئی تقدیر تو دیکھے اَسیرانِ محبت کی شہیدِ ناز کی تفریح زخموں سے نہ کیوں کر ہوہوائیں آتی ہیں ان کھڑکیوں سے باغِ جنت کی کرم والوں نے دَر کھولا تو رحمت نے سماں باندھاکمر باندھی تو قسمت کھول دی فضل شہادت کی علی کے پیارے خاتونِ قیامت کے جگر پارےزمیں سے آسماں تک دُھوم ہے اِن کی سیادت کی زمین کربلا پر آج مجمع ہے حسینوں کاجمی ہے انجمن روشن ہیں شمعیں نور و ظلمت کی یہ وہ شمعیں نہیں جو پھونک دیں اپنے فدائی کویہ وہ شمعیں نہیں رو کر جو کاٹیں رات آفت کی یہ وہ شمعیں ہیں جن سے جانِ تازہ پائیں پروانےیہ وہ شمعیں ہیں جو ہنس کر گزاریں شب مصیبت کی یہ وہ شمعیں نہیں جن سے فقط اک گھر منور ہویہ وہ شمعیں ہیں ۔۔۔

مزید

نجدیا سخت ہی گندی ہے طبیعت تیری

نجدیا سخت ہی گندی ہے طبیعت تیریکفر کیا شرک کا فضلہ ہے نجاست تیری خاک منہ میں ترے کہتا ہے کسے خاک کا ڈھیرمِٹ گیا دین ملی خاک میں عزت تیری تیرے نزدیک ہوا کذب الٰہی ممکنتجھ پہ شیطان کی پھٹکار یہ ہمت تیری بلکہ کذّاب کیا تو نے تو اِقرار وقوعاُف رے ناپاک یہاں تک ہے خباثت تیری علم شیطاں کا ہوا علمِ نبی سے زائدپڑھوں لاحول نہ کیوں دیکھ کے صورت تیری بزمِ میلاد ہو ’کانا‘ کے جنم سے بدترارے اندھے ارے مردود یہ جرأت تیری علمِ غیبی میں مجانین و بہائم کا شمولکفر آمیز جنوں زا ہے جہالت تیری یادِ خر سے ہو نمازوں میں خیال اُن کا بُرااُف جہنم کے گدھے اُف یہ خرافت تیری اُن کی تعظیم کرے گا نہ اگر وقتِ نمازماری جائے گی ترے منہ پہ عبادت تیری ہے کبھی بوم کی حلت تو کبھی زاغ حلالجیفہ خواری کی کہیں جاتی ہے عادت تیری ہنس کی چال تو کیا آتی ، گئی اپنی بھیاِجتہادوں ہی سے ظاہر ہے حماقت تیری کھلے ۔۔۔

مزید

ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہے

ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہےہم بے کسوں کے حال پہ تجھ کو نظر بھی ہے جوشِ عطش بھی شدّتِ سوزِ جگر بھی ہےکچھ تلخ کامیاں بھی ہیں کچھ دردِ سر بھی ہے ایسا عطا ہو جام شرابِ طہور کاجس کے خمار میں بھی مزہ ہو سُرور کا اب دیر کیا ہے بادۂ عرفاں قوام دےٹھنڈک پڑے کلیجہ میں جس سے وہ جام دے تازہ ہو رُوح پیاس بجھے لطف تام دےیہ تشنہ کام تجھ کو دعائیں مدام دے اُٹھیں سرور آئیں مزے جھوم جھوم کرہو جاؤں بے خبر لبِ ساغر کو چوم کر فکرِ بلند سے ہو عیاں اقتدارِ اوجچہکے ہزار خامہ سرِ شاخسارِ اوج ٹپکے گل کلام سے رنگِ بہارِ اوجہو بات بات شانِ عروج افتخارِ اوج فکر و خیال نور کے سانچوں میں ڈھل چلیںمضموں فرازِ عرش سے اُونچے نکل چلیں اِس شان اِس اَدا سے ثناے رسول ہوہر شعر شاخِ گل ہو تو ہر لفظ پھول ہو حُضّار پر سحابِ کرم کا نزول ہوسرکار میں یہ نذرِ محقر قبول ہو ایسی تعلّیوں سے ہو معراج کا بیاںسب حاملان۔۔۔

مزید

ہوا ہوں دادِ ستم کو میں حاضرِ دربار

ہوا ہوں دادِ ستم کو میں حاضرِ دربارگواہ ہیں دلِ محزون و چشمِ دریا بارطرح طرح سے ستاتا ہے زمرۂ اشراربدیع بہر خدا حرمتِ شہِ ابرارمدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدارنگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار اِدھر اقارب عقارب عدو اجانب و خویشاِدھر ہوں جوشِ معاصی کے ہاتھ سے دل ریشبیاں میں کس سے کروں ہیں جو آفتیں در پیشپھنسا ہے سخت بلاؤں میں یہ عقیدت کیشمدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدارنگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار نہ ہوں میں طالبِ افسر نہ سائل دیہیمکہ سنگ منزلِ مقصد ہے خواہش زر و سیمکیا ہے تم کو خدا نے کریم ابنِ کریمفقط یہی ہے شہا آرزوے عبد اثیممدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدارنگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار ہوا ہے خنجر افکار سے جگر گھائلنفس نفس ہے عیاں دم شماریِ بسملمجھے ہو مرحمت اب داروے جراحتِ دلنہ خالی ہاتھ پھرے آستاں سے یہ سائلمدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدارنگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار تمہارے ۔۔۔

مزید

السلام اے خسروِ دنیا و دیں

السلام اے خسروِ دنیا و دیںالسلام اے راحتِ جانِ حزیں السلام اے بادشاہِ دو جہاںالسلام اے سرورِ کون و مکاں السلام اے نورِ ایماں السلامالسلام اے راحتِ جاں السلام اے شکیبِ جانِ مضطر السلامآفتاب ذرّہ پرور السلام درد و غم کے چارہ فرما السلامدرد مندوں کے مسیحا السلام اے مرادیں دینے والے السلامدونوں عالم کے اُجالے السلام درد و غم میں مبتلا ہے یہ غریبدم چلا تیری دُہائی اے طبیب نبضیں ساقط رُوح مضطرجی نڈھالدردِ عصیاں سے ہوا ہے غیر حال بے سہاروں کے سہارے ہیں حضورحامی و یاور ہمارے ہیں حضور ہم غریبوں پر کرم فرمائیےبد نصیبوں پر کرم فرمائیے بے قراروں کے سرھانے آئیےدل فگاروں کے سرھانے آئیے جاں بلب کی چارہ فرمائی کروجانِ عیسیٰ ہو مسیحائی کرو شام ہے نزدیک، منزل دُور ہےپاؤں کیسے جان تک رنجور ہے مغربی گوشوں میں پھوٹی ہے شفقزردیِ خورشید سے ہے رنگ فق راہ نامعلوم صحرا پُر خطرکوئی ساتھی ہے نہ کوئ۔۔۔

مزید

رباعیات

جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہومختار ہو مالکِ خدائی تم ہوجلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خداآئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو (دیگر) یارانِ نبی کا وصف کس سے ہو اَداایک ایک ہے ان میں ناظمِ نظمِ ہدیٰپائے کوئی کیوں کر اس رُباعی کا جواباے اہلِ سخن جس کا مصنف ہو خدا (دیگر) بدکار ہیں عاصی ہیں زیاں کار ہیں ہمتعزیر کے بے شبہ سزاوار ہیں ہمیہ سب سہی پر دل کو ہے اس سے قوتاللہ کریم ہے گنہگار ہیں ہم (دیگر) خاطی ہوں سیاہ رُو ہوں خطاکار ہوں میںجو کچھ ہو حسنؔ سب کا سزاوار ہوں میںپر اُس کے کرم پر ہے بھروسہ بھاریاللہ ہے شاہد کہ گنہگار ہوں میں (دیگر) اس درجہ ہے ضعف جاں گزاے اسلامہیں جس سے ضعیف سب قواے اسلاماے مرتوں کی جان کو بچانے والےاب ہے ترے ہاتھ میں دواے اسلام (دیگر) کب تک یہ مصیبتیں اُٹھائے اسلامکب تک رہے ضعف جاں گزاے اِسلامپھر از سرِ نو اِس کو توانا کر دےاے حامیِ اسلام خداے اسلام (دیگر) ہے شام قریب چھپی ۔۔۔

مزید

وہ اُٹھی دیکھ لو گردِ سواری

وہ اُٹھی دیکھ لو گردِ سواری عیاں ہونے لگے انوارِ باری نقیبوں کی صدائیں آ رہی ہیںکسی کی جان کو تڑپا رہی ہیں مؤدب ہاتھ باندھے آگے آگےچلے آتے ہیں کہتے آگے آگے فدا جن کے شرف پر سب نبی ہیںیہی ہیں وہ یہی ہیں وہ یہی ہیں یہی والی ہیں سارے بیکسوں کےیہی فریاد رس ہیں بے بسوں کے یہی ٹوٹے دلوں کو جوڑتے ہیںیہی بند اَلم کو توڑتے ہیں اَسیروں کے یہی عقدہ کشا ہیںغریبوں کے یہی حاجت روا ہیں یہی ہیں بے کلوں کی جان کی کلانہیں سے ٹیک ہے ایمان کی کل شکیب بے قراراں ہے انہیں سےقرارِ دل فگاراں ہے انہیں سے اِنہیں سے ٹھیک ہے سامانِ عالماِنہیں پر ہے تصدق جانِ عالم یہی مظلوم کی سنتے ہیں فریادیہی کرتے ہیں ہر ناشاد کو شاد انہیں کی ذات ہے سب کا سہاراانہیں کے دَر سے ہے سب کا گزارا انہیں پر دونوں عالم مر رہے ہیںانہیں پر جان صدقے کر رہے ہیں انہیں سے کرتی ہیں فریاد چڑیاں انہیں سے چاہتی ہیں داد چڑیاں انہی۔۔۔

مزید

یارب تو ہے سب کا مولیٰ

یا ربّ تو ہے سب کا مولیٰسب سے اعلی سب سے اولیٰ تیری ثنا ہو کس کی زباں سےلائے بشر یہ بات کہاں سے تیری اک اک بات نرالیبات نرالی ذات نرالی تیرا ثانی کوئی نہ پایاساتھی ساجھی کوئی نہ پایا تو ہی دے اور تو ہی دلائےتیرے دیے سے عالم پائے تو ہی اوّل تو ہی آخرتو ہی باطن تو ہی ظاہر کیا کوئی تیرا بھید بتائےتو وہ نہیں جو فہم میں آئے پہلے نہ تھا کیا اب کچھ تو ہےکوئی نہیں کچھ سب کچھ تو ہے تو ہی ڈبوئے تو ہی اچھالےتو ہی بگاڑے تو ہی سنبھالے تجھ پر ذرّہ ذرّہ ظاہرنیت ظاہر اِرادہ ظاہر تجھ سے بھاگ کے جانا کیساکوئی اور ٹھکانا کیسا تو ہی یاد دلا کے بھلائےتو ہی بھلا کے یاد دلائے تو ہی چھٹا دے تو ہی ملا دےتو ہی گما دے تو ہی پتا دے کوئی نہ تھا جب بھی تھا تو ہیتھا تو ہی تو ہو گا تو ہی تیرے دَر سے جو بھاگ کے جائیںہر پھر تیرے ہی دَر پر آئیں تیری قدرت کا ہے نمونہنارِ خلیل و بادِ مسیحا آٹھ پہر ہے لنگ۔۔۔

مزید

صانع نے اک باغ لگایا

صانع نے اِک باغ لگایاباغ کو رشک خلد بنایا خلد کو اس سے نسبت ہو کیاگلشن گلشن صحرا صحرا چھائے لطف و کرم کے بادلآئے بذل و نعم کے بادل خوب گھریں گھنگھور گھٹائیںکرنے لگیں غل شور گھٹائیں لہریں کرتی نہریں آئیںموجیں کرتی موجیں لائیں سرد ہوا کے آئے جھونکےآنکھوں میں نیند کے لائے جھونکے سبزہ لہریں لیتا نکلامینہ کو دعائیں دیتا نکلا بولے پپیہے کوئل کوکیساعت آئی جام و سبو کی پھرتی ہے بادِ صبا متوالیپتے پتے ڈالی ڈالی چپے چپے ہوائیں گھومیںپتلی پتلی شاخیں جھومیں فصلِ بہار پر آیا جوبنجوبن اور گدرایا جوبن گل پر بلبل سرو پہ قمریبولے اپنی اپنی بولی چٹکیں کچی کچی کلیاںخوشبو نکلی بس گئیں گلیاں آئیں گھٹائیں کالی کالیجگنو چمکے ڈالی ڈالی کیوں کر کہیے بہار کی آمدآمد اور کس پیار کی آمد چال میں سو انداز دکھاتیطرزِ خرامِ ناز اُڑاتی رنگ رُخِ گل رنگ دکھاتیغم کو گھٹاتی دل کو بڑھاتی یاس کو کھوت۔۔۔

مزید

آئیں بہاریں برسے جھالے

آئیں بہاریں برسے جھالےنغمہ سرا ہیں گلشن والے شاہد گل کا جوبن اُمڈادل کو پڑے ہیں جان کے لالے ابرِ بہاری جم کر برساخوب چڑھے ہیں ندّی نالے کوئل اپنی کُوک میں بولیآئے بادل کالے کالے حسنِ شباب ہے لالہ و گل پرقہر ہیں اُٹھتے جوبن والے پھیلی ہیں گلشن میں ضیائیںشمع و لگن ہیں سرو اور تھالے عارضِ گل سے پردہ اٹھابلبلِ مضطر دل کو سنبھالے جوشِ طبیعت روکے تھامےشوقِ رُؤیت دیکھے بھالے سن کے بہار کی آمد آمدہوش سے باہر ہیں متوالے بوٹے گل رویانِ کم سنپیارے پیارے بھولے بھالے فیضِ اَبر بہاری پہنچاپودے پودے تھالے تھالے جمع ہیں عقد عروسِ گل میںسب رنگین طبیعت والے بانٹتی ہے نیرنگیِ موسمبزم میں سرخ و سبز دو شالے نکہت آئی عطر لگانےپھول نے ہار گلوں میں ڈالے پنکھے جھلنے والی نسیمیںبادل پانی دینے والے گاتے ہیں مل مل کے عنادلسہرا مبارک ہو ہریالے ایسی فصل میں جوشِ طبیعتکس سے سنبھلے کون سنبھالے آ۔۔۔

مزید

چھائے غم کے بادل کالے

چھائے غم کے بادل کالےمیری خبر اے بدرِ دُجیٰ لے گرتا ہوں میں لغزشِ پا سےآ اے ہاتھ پکڑنے والے زُلف کا صدقہ تشنہ لبوں پربرسا مہر و کرم کے جھالے خاک مری پامال ہو کب تکنیچے نیچے دامن والے پھرتا ہوں میں مارا ماراپیارے اپنے دَر پہ بُلا لے کام کیے بے سوچے سمجھےراہ چلا بے دیکھے بھالے ناری دے کر خط غلامیتجھ سے لیں جنت کے قبالے تو ترے احساں میرے یاورہیں مرے مطلب تیرے حوالے تیرے صدقے تیرے قرباںمیرے آس بندھانے والے بگڑی بات کو تو ہی بنائےڈوبتی ناؤ کو تو ہی سنبھالے تم سے جو مانگا فوراً پایاتم نہیں کرتے ٹالے بالے وسعت خوانِ کرم کے تصدقدونوں عالم تم نے پالے دیکھیں جنہوں نے تیری آنکھیںوہ ہیں حق کے دیکھنے والے تیرے عارض گورے گورےشمس و قمر کے گھر کے اُجالے اَبر لطف و غلافِ کعبہتیرے گیسو کالے کالے آفت میں ہے غلامِ ہندیتیری دُہائی مدینے والے تنہا میں اے حامیِ بے کسسینکڑوں ہیں دُکھ دینے و۔۔۔

مزید