جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہو
مختار ہو مالکِ خدائی تم ہو
جلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خدا
آئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو
(دیگر)
یارانِ نبی کا وصف کس سے ہو اَدا
ایک ایک ہے ان میں ناظمِ نظمِ ہدیٰ
پائے کوئی کیوں کر اس رُباعی کا جواب
اے اہلِ سخن جس کا مصنف ہو خدا
(دیگر)
بدکار ہیں عاصی ہیں زیاں کار ہیں ہم
تعزیر کے بے شبہ سزاوار ہیں ہم
یہ سب سہی پر دل کو ہے اس سے قوت
اللہ کریم ہے گنہگار ہیں ہم
(دیگر)
خاطی ہوں سیاہ رُو ہوں خطاکار ہوں میں
جو کچھ ہو حسنؔ سب کا سزاوار ہوں میں
پر اُس کے کرم پر ہے بھروسہ بھاری
اللہ ہے شاہد کہ گنہگار ہوں میں
(دیگر)
اس درجہ ہے ضعف جاں گزاے اسلام
ہیں جس سے ضعیف سب قواے اسلام
اے مرتوں کی جان کو بچانے والے
اب ہے ترے ہاتھ میں دواے اسلام
(دیگر)
کب تک یہ مصیبتیں اُٹھائے اسلام
کب تک رہے ضعف جاں گزاے اِسلام
پھر از سرِ نو اِس کو توانا کر دے
اے حامیِ اسلام خداے اسلام
(دیگر)
ہے شام قریب چھپی جاتی ہے ضو
منزل ہے بعید تھک گیا رہرو
اب تیری طرف شکستہ حالوں کے رفیق
ٹوٹی ہوئی آس نے لگائی ہے لو
(دیگر)
برسائے وہ آزادہ روی نے جھالے
ہر راہ میں بہہ رہے ہیں ندی نالے
اسلام کے بیٹرے کو سہارا دینا
اے ڈوبتوں کے پار لگانے والے
(دیگر)
سن احقر افرادِ زمن کی فریاد
سن بندۂ پابندِ محن کی فریاد
یا رب تجھے واسطہ خداوندی کا
رہ جائے نہ بے اَثر حسنؔ کی فریاد
(دیگر)
جو لوگ خدا کی ہیں عبادت کرتے
کیوں اہلِ خطا کی ہیں حقارت کرتے
بندے جو گنہگار ہیں وہ کس کے ہیں
کچھ دیر اُسے ہوتی ہے رحمت کرتے
(دیگر)
دنیا فانی ہے اہلِ دنیا فانی
شہر و بازار و کوہ و صحرا فانی
دل شاد کریں کس کے نظارہ سے حسنؔ
آنکھیں فانی ہیں یہ تماشا فانی
(دیگر)
اس گھر میں نہ پابند نہ آزاد رہے
غمگین رہے کوئی نہ دل شاد رہے
تعمیر مکاں کس کے لیے ہوتا ہے
کوئی نہ رہے گا یہاں یہ یاد رہے
ذوقِ نعت