/ Thursday, 13 March,2025


استادِ زمن حضرت مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی رحمتہ اللہ تعا لٰی علیہ   (121)





جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب

جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاببھیک کو مشرق سے نکلا آفتاب جلوہ فرما ہو جو میرا آفتابذرّہ ذرّہ سے ہو پیدا آفتاب عارضِ پُر نور کا صاف آئینہجلوۂ حق کا چمکتا آفتاب یہ تجلّی گاہِ ذاتِ بحت ہےزُلفِ انور ہے شب آسا آفتاب دیکھنے والوں کے دل ٹھنڈے کیےعارضِ انور ہے ٹھنڈا آفتاب ہے شبِ دیجور طیبہ نور سےہم سیہ کاروں کا کالا آفتاب بخت چمکا دے اگر شانِ جمالہو مری آنکھوں کا تارا آفتاب نور کے سانچے میں ڈھالا ہے تجھےکیوں ترے جلووں کا ڈھلتا آفتاب ناخدائی سے نکالا آپ نےچشمۂ مغرب سے ڈوبا آفتاب ذرّہ کی تابش ہے اُن کی راہ میںیا ہوا ہے گِر کے ٹھنڈا آفتاب گرمیوں پر ہے وہ حُسنِ بے زوالڈھونڈتا پھرتا ہے سایہ آفتاب اُن کے دَر کے ذرّہ سے کہتا ہے مہرہے تمہارے دَر کا ذرّہ آفتاب شامِ طیبہ کی تجلی دیکھ کرہو تری تابش کا تڑکا آفتاب روے مولیٰ سے اگر اُٹھتا نقابچرخ کھا کر غش میں گرتا آفتاب کہہ رہی۔۔۔

مزید

باغِ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت

باغ‘جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیتتم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلِ بیت کس زباں سے ہو بیانِ عز و شانِ اہلِ بیتمدح گوے مصطفیٰ ہے مدح خوانِ اہلِ بیت اُن کی پاکی کا خداے پاک کرتا ہے بیاںآیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت مصطفےٰ عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیںہے بلند اقبال تیرا دُودمانِ اہلِ بیت اُن کے گھر میں بے اجازت جبرئیل آتے نہیںقدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت مصطفےٰ بائع خریدار اُس کا اللہ اشتریٰخوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہلِ بیت رزم کا میداں بنا ہے جلوہ گاہِ حسن وعشقکربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہلِ بیت پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہواے دوست نےخون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہلِ بیت حوریں کرتی ہے عروسانِ شہادت کا سنگارخوبرو دُولھا بنا ہے ہر جوانِ اہلِ بیت ہو گئی تحقیق عیدِ دید آبِ تیغ سےاپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہلِ بیت جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج۔۔۔

مزید

جاں بلب ہوں آمیری جاں الغیاث

جاں بلب ہوں آ مری جاں الغیاثہوتے ہیں کچھ اور ساماں الغیاث درد مندوں کو دوا ملتی نہیںاے دواے درد منداں الغیاث جاں سے جاتے ہیں بے چارے غریبچارہ فرماے غریباں الغیاث حَد سے گزریں درد کی بے دردیاںدرد سے بے حد ہوں نالاں الغیاث بے قراری چین لیتی ہی نہیںاَے قرارِ بے قراراں الغیاث حسرتیں دل میں بہت بے چین ہیںگھر ہوا جاتا ہے زنداں الغیاث خاک ہے پامال میری کُو بہ کُواے ہواے کوے جاناں الغیاث المدد اے زُلفِ سرور المددہوں بلاؤں میں پریشاں الغیاث دلِ کی اُلجھن دُور کر گیسوے پاکاے کرم کے سنبلستان الغیاث اے سرِ پُر نور اے سرِ ّخداہوں سراسیمہ پریشاں الغیاث غمزدوں کی شام ہے تاریک راتاے جبیں اے ماہِ تاباں الغیاث اَبروے شہ کاٹ دے زنجیرِ غمتیرے صدقے تیرے قرباں الغیاث دل کے ہر پہلو میں غم کی پھانس ہےمیں فدا مژگانِ جاناں الغیاث چشمِ رحمت آ گیا آنکھوں میں دمدیکھ حالِ خستہ حالاں الغیاث مردمک اے م۔۔۔

مزید

پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوث

پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوثمدد پر ہو تیری اِمداد یا غوث اُڑے تیری طرف بعد فنا خاکنہ ہو مٹی مری برباد یا غوث مرے دل میں بسیں جلوے تمہارےیہ ویرانہ بنے بغداد یا غوث نہ بھولوں بھول کر بھی یاد تیرینہ یاد آئے کسی کی یاد یا غوث مُرِیْدِیْ لَا تَخَفْ فرماتے آؤبَلاؤں میں ہے یہ ناشاد یا غوث گلے تک آ گیا سیلاب غم کاچلا میں آئیے فریاد یا غوث نشیمن سے اُڑا کر بھی نہ چھوڑاابھی ہے گھات میں صیاد یا غوث خمیدہ سر گرفتارِ قضا ہےکشیدہ خنجر جلاّد یا غوث اندھیری رات جنگل میں اکیلامدد کا وقت ہے فریاد یا غوث کھلا دو غنچۂ خاطر کہ تم ہوبہارِ گلشنِ ایجاد یا غوث مرے غم کی کہانی آپ سن لیںکہوں میں کس سے یہ رُوداد یا غوث رہوں آزادِ قیدِ عشق کب تککرو اِس قید سے آزاد یا غوث کرو گے کب تک اچھا مجھ برے کومرے حق میں ہے کیا اِرشاد یا غوث غمِ دنیا غمِ قبر و غمِ حشرخدارا کر دو مجھ کو شاد یا غوث حسنؔ من۔۔۔

مزید

کیا مژدہٗ جاں بخش سنائے گا قلم آج

کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آجکاغذ پہ جو سو ناز سے رکھتا ہے قدم آج آمد ہے یہ کس بادشہِ عرش مکاں کیآتے ہیں فلک سے جو حسینانِ اِرم آج کس گل کی ہے آمد کہ خزاں دیدہ چمن میںآتا ہے نظر نقشۂ گلزارِ اِرم آج نذرانہ میں سر دینے کو حاضر ہے زمانہاُس بزم میں کس شاہ کے آتے ہیں قدم آج بادل سے جو رحمت کے سرِ شام گھرے ہیںبرسے گا مگر صبح کو بارانِ کرم آج کس چاند کی پھیلی ہے ضیا کیا یہ سماں ہےہر بام پہ ہے جلوہ نما نورِ قدم آج کھلتا نہیں کس جانِ مسیحا کی ہے آمدبت بولتے ہیں قالبِ بے جاں میں ہے دَم آج بُت خانوں میں وہ قہر کا کہرام پڑا ہےمِل مِل کے گلے روتے ہیں کفار و صنم آج کعبہ کا ہے نغمہ کہ ہوا لوث سے میں پاکبُت نکلے کہ آئے مرے مالک کے قدم آج تسلیم میں سر وجد میں دل منتظر آنکھیںکس پھول کے مشتاق ہیں مُرغانِ حرم آج اے کفر جھکا سر وہ شہِ بُت شکن آیاگردن ہے تری دم میں تہِ تیغِ ۔۔۔

مزید

پر نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادت

پرُ نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادتپرَدہ اُٹھا ہے کس کا صبح شبِ ولادت جلوہ ہے حق کا جلوہ صبح شبِ ولادتسایہ خدا کا سایہ صبح شبِ ولادت فصلِ بہار آئی شکلِ نگار آئیگلزار ہے زمانہ صبح شبِ ولادت پھولوں سے باغ مہکے شاخوں پہ مُرغ چہکےعہدِ بہار آیا صبح شبِ ولادت پژ مُردہ حسرتوں کے سب کھیت لہلہائےجاری ہوا وہ دریا صبح شبِ ولادت گل ہے چراغِ صرَصَر گل سے چمن معطرآیا کچھ ایسا جھونکا صبح شبِ ولادت قطرہ میں لاکھ دریا گل میں ہزار گلشننشوونما ہے کیا کیا صبح شبِ ولادت جنت کے ہر مکاں کی آئینہ بندیاں ہیںآراستہ ہے دنیا صبح شب ولادت دل جگمگا رہے ہیں قسمت چمک اُٹھی ہےپھیلا نیا اُجالا صبح شبِ ولادت چِٹکے ہوئے دِلوں کے مدّت کے میل چھوٹےاَبرِ کرم وہ برسا صبح شب ولادت بلبل کا آشیانہ چھایا گیا گلوں سےقسمت نے رنگ بدلا صبح شبِ ولادت اَرض و سما سے منگتا دوڑے ہیں بھیک لینےبانٹے گا کون باڑا صبح شبِ ولادت ۔۔۔

مزید

دشت مدینہ کی ہے عجب پر بہار صبح

دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبحہر ذرّہ کی چمک سے عیاں ہیں ہزار صبح منہ دھو کے جوے شِیر میں آئے ہزار صبحشامِ حرم کی پائے نہ ہر گز بہار صبح ﷲ اپنے جلوۂ عارض کی بھیک دےکر دے سیاہ بخت کی شب ہاے تار صبح روشن ہے اُن کے جَلوۂ رنگیں کی تابشیںبلبل ہیں جمع ایک چمن میں ہزار صبح رکھتی ہے شامِ طیبہ کچھ ایسی تجلیاںسو جان سے ہو جس کی اَدا پر نثار صبح نسبت نہیں سحر کو گریبانِ پاک سےجوشِ فروغ سے ہے یہاں تار تار صبح آتے ہیں پاسبانِ درِ شہ فلک سے روزستر ہزار شام تو ستر ہزار صبح اے ذرّۂ مدینہ خدارا نگاہِ مہرتڑکے سے دیکھتی ہے ترا انتظار صبح زُلفِ حضور و عارضِ پُر نور پر نثارکیا نور بار شام ہے کیا جلوہ بار صبح نورِ ولادت مہِ بطحا کا فیض ہےرہتی ہے جنتوں میں جو لیل و نہار صبح ہر ذرّۂ حَرم سے نمایاں ہزار مہرہر مہر سے طلوع کناں بے شمار صبح گیسو کے بعد یاد ہو رُخسارِ پاک کیہو مُشک بار شام کی کافور۔۔۔

مزید

جو نور بار ہوا آفتابِ حسنِ ملیح

جو نور بار ہوا آفتابِ حسنِ ملیحہوئے زمین و زماں کامیابِ حُسنِ ملیح زوال مہر کو ہو ماہ کا جمال گھٹےمگر ہے اَوج ابد پر شبابِ حُسنِ ملیح زمیں کے پھول گریباں دریدۂ غمِ عشقفلک پہ بَدر دل افگار تابِ حُسنِ ملیح دلوں کی جان ہے لطفِ صباحتِ یوسفمگر ہوا ہے نہ ہو گا جوابِ حُسنِ ملیح الٰہی موت سے یوں آئے مجھ کو میٹھی نیندرہے خیال کی راحت ہو خوابِ حُسنِ ملیح جمال والوں میں ہے شورِ عشق اور ابھیہزار پردوں میں ہے آب و تابِ حُسنِ ملیح زمینِ شور بنے تختہ گل و سنبلعرق فشاں ہو اگر آب و تابِ حُسنِ ملیح نثار دولتِ بیدار و طالعِ ازواجنہ دیکھی چشمِ زلیخا نے خوابِ حُسنِ ملیح تجلیوں نے نمک بھر دیا ہے آنکھوں میںملاحت آپ ہوئی ہے حجابِ حُسنِ ملیح نمک کا خاصہ ہے اپنے کیف پر لاناہر ایک شے نہ ہو کیوں بہرہ یابِ حُسنِ ملیح عسل ہو آب بنیں کوزہائے قند حبابجو بحرِ شور میں ہو عکس آبِ حُسنِ ملیح دل صباحتِ ۔۔۔

مزید

سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخ

سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخکرم کا چشمۂ جاری ہے بارھویں تاریخ ہمیں تو جان سے پیاری ہے بارھویں تاریخعدو کے دل کو کٹاری ہے بارھویں تاریخ اِسی نے موسمِ گل کو کیا ہے موسمِ گلبہارِ فصلِ بہاری ہے بارھویں تاریخ بنی ہے سُرمۂ چشمِ بصیرت و ایماںاُٹھی جو گردِ سواری ہے بارھویں تاریخ ہزار عید ہوں ایک ایک لحظہ پر قرباںخوشی دلوں پہ وہ طاری ہے بارھویں تاریخ فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہےزمینِ خلد کی کیاری ہے بارھویں تاریخ تمام ہو گئی میلادِ انبیا کی خوشیہمیشہ اب تری باری ہے بارھویں تاریخ دِلوں کے میل دُھلے گل کھلے ُسرور ملےعجیب چشمہ جاری ہے بارھویں تاریخ چڑھی ہے اَوج پہ تقدیر خاکساروں کیخدا نے جب سے اُتاری ہے بارھویں تاریخ خدا کے فضل سے ایمان میں ہیں ہم پورےکہ اپنی رُوح میں ساری ہے بارھویں تاریخ ولادتِ شہِ دیں ہر خوشی کی باعث ہےہزار عید سے بھاری ہے بارھویں تاریخ ہمیشہ تو نے غلاموں کے ۔۔۔

مزید

ذاتِ والا پہ بار بار درود

ذاتِ والا پہ بار بار درودبار بار اور بے شمار درود رُوئے اَنور پہ نور بار سلامزُلفِ اطہر پہ مشکبار درود اُس مہک پر شمیم بیز سلاماُس چمک پہ فروغ بار درود اُن کے ہر جلوہ پر ہزار سلاماُن کے ہر لمعہ پر ہزار درود اُن کی طلعت پر جلوہ ریز سلاماُن کی نکہت پہ عطر بار درود جس کی خوشبو بہارِ خلد بسائےہے وہ محبوبِ گلعذار درود سر سے پا تک کرور بار سلاماور سراپا پہ بے شمار درود دل کے ہمراہ ہوں سلام فداجان کے ساتھ ہو نثار درود چارۂ جان درد مند سلاممرھمِ سینۂ فگار درود بے عدد اور بے عدد تسلیمبے شمار اور بے شمار درود بیٹھتے اُٹھتے جاگتے سوتےہو الٰہی مرا شعار درود شہر یارِ رُسل کی نذر کروںسب درودوں کی تاجدار درود گور بیکس کو شمع سے کیا کامہو چراغِ سرِِ مزار درود قبر میں خوب کام آتی ہےبیکسوں کی ہے یارِ غار درود اُنھیں کس کے دُرود کی پروابھیجے جب اُن کا کردگار درود ہے کرم ہی کرم کہ سنتے ہیں۔۔۔

مزید

رنگِ چمن پسند نہ پھولوں کی بو پسند

رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسندصحرائے طیبہ ہے دلِ بلبل کو توُ پسند اپنا عزیز وہ ہے جسے تُو عزیز ہےہم کو ہے وہ پسند جسے آئے تُو پسند مایوس ہو کے سب سے میں آیا ہوں تیرے پاساے جان کر لے ٹوٹے ہوئے دل کو تو پسند ہیں خانہ زاد بندۂ احساں تو کیا عجبتیری وہ خُو ہے کرتے ہیں جس کو عدُو پسند کیوں کر نہ چاہیں تیری گلی میں ہوں مٹ کے خاکدنیا میں آج کس کو نہیں آبرو پسند ہے خاکسار پر کرمِ خاص کی نظرعاجز نواز ہے تیری خُو اے خوبرو پسند قُلْ کہہ کر اپنی بات بھی لب سے ترے سنیاﷲ کو ہے اِتنی تری گفتگو پسند حُورو فرشتہ جن و بشر سب نثار ہیںہے دو جہاں میں قبضہ کیے چار سُو پسند اُن کے گناہگار کی اُمیدِ عفو کوپہلے کرے گی آیتِ لَا تَقْنَطُوْا پسند طیبہ میں سر جھکاتے ہیں خاکِ نیاز پرکونین کے بڑے سے بڑے آبرو پسند ہے خواہشِ وصالِ درِ یار اے حسنؔآئے نہ کیوں اَثر کو مری آرزو پسند ذوقِ نعت ۔۔۔

مزید

ہو اگر مدحِ کفِ پا سے منور کاغذ

ہو اگر مدحِ کفِ پا سے منور کاغذعارضِ حور کی زینت ہو سراسر کاغذ صفتِ خارِ مدینہ میں کروں گل کاریدفترِ گل کا عنادِل سے منگا کر کاغذ عارضِ پاک کی تعریف ہو جس پرچے میںسو سیہ نامہ اُجالے وہ منور کاغذ شامِ طیبہ کی تجلّی کا کچھ اَحوال لکھوںدے بیاضِ سحر اک ایسا منور کاغذ یادِ محبوب میں کاغذ سے تو دل کم نہ رہےکہ جدا نقش سے ہوتا نہیں دَم بھر کاغذ ورقِ مہر اُسے خط غلامی لکھ دےہو جو وصفِ رُخِ پُر نور سے انور کاغذ تیرے بندے ہیں طلبگار تری رحمت کےسن گناہوں کے نہ اے دَاورِ محشر کاغذ لَبِ جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میںہو مجھے تارِ نفس ہر خَطِ مسطر کاغذ مدح رُخسار کے پھولوں میں بسا لوں جو حسنؔحشر میں ہو مرے نامہ کا معطر کاغذ ذوقِ نعت ۔۔۔

مزید