ساقیا کیوں آج رِندوں پر ہے تو نا مہرباں کیوں نہیں دیتا ہمیں جامِ شرابِ ارغواں تشنہ کاموں پر ترس کس واسطے آتا نہیںکیوں نہیں سنتا ہے مے خواروں کی فریاد و فغاں جام کیوں اوندھے پڑے ہیں کیوں ہیں منہ شیشوں کے بندعقدۂ لاحل بنا ہے کیوں ہر اِک خُمِ مے کا دہاں کیوں صدا قلقل کی مینا سے نہیں ہوتی بلندکیوں اُداسی چھا رہی ہے کیوں ہوئی سونی دکاں کیوں ہے مہر خامشی منہ پر سبُو کے جلوہ ریزکچھ نہیں کھلتا مجھے کیسا بندھا ہے یہ سماں کس قدر اعضا شکن ہے یہ خمارِ جاں گسلہے جماہی پر جماہی ٹوٹتی ہیں ہڈیاں کیا غضب ہے تجھ کو اِس حالت پہ رحم آتا نہیںخشک ہے منہ میں زباں آتی ہیں پیہم ہچکیاں آمدِ بادِ بہاری ہے گلستاں کی طرففصلِ گلشن کر رہی ہے کیا ہی رنگ آمیزیاں ابر کی اٹکھیلیوں سے جوبنوں پر ہے بہارپڑ رہی ہیں پیاری پیاری ننھی ننھی بوندیاں چار جانب سے گھٹاؤں نے بڑھائے ہیں قدمتوسِن بادِ صبا پر لی ہے راہِ ۔۔۔
مزیددنیا و دیں کے اس کے مقاصد حصول ہیںجس کی مدد پہ حضرت فضل رسول ہیں منکر تری فضیلت و جاہ و جلال کی بے دیں ہیں یا حسود ہیں یا بوالفضول ہیں حاضر ہوئے ہیں مجلس عرسِ حضور میںکیا ہم پہ حق کے لطف ہیں فضل رسول ہیں کافی ہے خاک کرنے کو یک نالۂ رسادفتر اگرچہ نامۂ عصیاں کے طول ہیں خاکِ درِ حضور ہے یا ہے یہ کیمیایہ خارِ راہ ہیں کہ یہ جنت کے پھول ہیں ذوقِ نعت۔۔۔
مزیدتوانائی نہیں صدمہ اُٹھانے کی ذرا باقینہ پوچھو ہائے کیا جاتا رہا کیا رہ گیا باقی زمانے نے ملائیں خاک میں کیفیتیں ساریبتا دو گر کسی شے میں رہا ہو کچھ مزا باقی نہ اب تاثیر مقناطیس حسن خوب رویاں میںنہ اب دل کش نگاہوں میں رہا دل کھینچنا باقی نہ جلوہ شاہد گل کا نہ غل فریادِ بلبل کانہ فضل جاں فزا باقی نہ باغِ دل کشا باقی نہ جوبن شوخیاں کرتا ہے اُونچے اُونچے سینوں پرنہ نیچی نیچی نظروں میں ہے اندازِ حیا باقی کہاں وہ قصر دل کش اور کہاں وہ دلربا جلسےنہ اس کا کچھ نشاں قائم نہ اس کا کچھ پتا باقی کہاں ہیں وہ چلا کرتے تھے جن کے نام کے سکےنشاں بھی ہے زمانہ میں اب ان کے نام کا باقی کہاں ہیں وہ کہ جن کے دم سے تھے آباد لاکھوں گھرخدا شاہد جو ان کی قبر کا بھی ہو پتا باقی شجاعت اپنے سر پر ڈالتی ہے خاک میداں کینہ کوئی صف شکن باقی نہ کوئی سُورما باقی سحر جا کر اسے دیکھا تو سناٹا نظر آیاوہ محفل جس میں۔۔۔
مزیدترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونقترا ہی نور ہے بزمِ ظہور کی رونق رہے نہ عفو مںچ پھر ایک ذرّہ شک باقیجو اُن کی خاکِ قدم ہو قبور کی رونق نہ فرش کا یہ تجمل نہ عرش کا یہ جمالفقط ہے نور و ظہورِ حضور کی رونق تمہارے نور سے روشن ہوئے زمنی و فلکییہ جمال ہے نزدیک و دُور کی رونق زبانِ حال سے کہتے ہںد نقشِ پا اُن کےہمںن ہںے چہرۂ غلمان و حور کی رونق ترے نثار ترا ایک جلوۂ رنگںحبہارِ جنت و حور و قصور کی رونق ضاا زمنو و فلک کی ہے جس تجلّی سےالٰہی ہو وہ دلِ ناصبور کی رونق ییٰ فروغ تو زیبِ صفا و زینت ہےییٰ ہے حسن تجلّی و نور کی رونق حضور ترتہ و تاریک ہے یہ پتھر دلتجلّیوں سے ہوئی کوہِ طور کی رونق سجی ہے جن سے شبستانِ عالمِ امکاںوہی ہں مجلسِ روزِ نشور کی رونق کریں دلوںکومنورسراج(۱)کے جلوےفروغِ بزمِ عوارف ہو نور (۲) کی رونق دعا خدا سے غمِ عشقِ مصطفےٰ کی ہےحسنؔ یہ غم ہے نشاط و سُرور کی رونق ۱۔ سراج ۔۔۔
مزیدجو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تکتو پہنچے تاجِ عزت اپنے سر تک وہ جب تشریف لائے گھرسے در تکبھکاری کا بھرا ہے دَر سے گھر تک دُہائی ناخداے بے کساں کیٔکہ سلاکبِ اَلم پہنچا کمر تک الٰہی دل کو دے وہ سوزِ اُلفتپُھنکے سنہک جلن پہنچے جگر تک نہ ہو جب تک تمہارا نام شاملدعائںے جا نہںا سکتںے اَثر تک گزر کی راہ نکلی رہ گزر مںقابھی پہنچے نہ تھے ہم اُن کے دَر تک خدا یوں اُن کی اُلفت مںں گما دےنہ پاؤں پھر کبھی اپنی خبر تک بجائے چشم خود اُٹھتا نہ ہو آڑجمالِ یار سے ترنی نظر تک تری نعمت کے بُھوکے اہلِ دولتتری رحمت کا پاھسا ابر تک نہ ہو گا دو قدم کا فاصلہ بھیالٰہ آباد سے احمد نگر تک تمہارے حسن کے باڑے کے صدقےنمک خوار ملاحت ہے قمر تک شبِ معراج تھے جلوے پہ جلوےشبستانِ دنیٰ سے اُن کے گھر تک بلائے جان ہے اب ویرانیِ دلچلے آؤ کبھی اس اُجڑے گھر تک نہ کھول آنکھںل نگاہِ شوقِ ناقصبہت پردے ہںن حسنِ جلوہ۔۔۔
مزیددمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئےمرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے تری وحشتوں سے اے دل مجھے کیوں نہ عار آئےتو اُنھیں سے دُور بھاگے جنھیں تجھ پہ پیار آئےمرے دل کو دردِ اُلفت وہ سکون دے الٰہیمری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئےمجھے نزع چین بخشے مجھے موت زندگی دےوہ اگر مرے سرھانے دمِ احتضار آئےسببِ وفورِ رحمت میری بے زبانیاں ہیںنہ فغاں کے ڈھنگ جانوں نہ مجھے پکار آئےکھلیں پھول اِس پھبن کے کھلیں بخت اِس چمن کےمرے گل پہ صدقے ہو کے جو کبھی بہار آئےنہ حبیب سے محب کا کہیں ایسا پیار دیکھاوہ بنے خدا کا پیارا تمھیں جس پہ پیار آئےمجھے کیا اَلم ہو غم کا مجھے کیا ہو غم اَلم کاکہ علاج غم اَلم کا میرے غمگسار آئےجو امیر و بادشا ہیں اِسی دَر کے سب گدا ہیںتمھیں شہر یار آئے تمھیں تاجدار آئےجو چمن بنائے بَن کو جو جِناں کرے چمن کومرے باغ میں الٰہی کبھی وہ بہار آئےیہ کریم ہیں وہ سرور کہ لکھا ہوا ہے۔۔۔
مزیداِسے کہتے ہیں خضر قوم بعض احمق زمانہ میںیہ وہ ہے آٹھ سو کم کر کے جو کچھ رہ گیا باقی مزارِ پیر نیچر سے بھی نکلے گی صدا پیہمچڑھا جاؤ گرہ میں ہو جو کچھ پیسا ٹکا باقی نئی ہمدردیاں ہیں لوٹ کر ایمان کی دولتنہ چھوڑا قوم میں افلاس عقبیٰ کے سوا باقی ظروفِ مے کدہ توڑے تھے چن کر محتسب نے سبالٰہی رہ گیا کس طرح یہ چکنا گھڑا باقی مریدوں پر جو پھیرا دست شفقت پیر نیچر نےنہ رکھا دونوں گالوں پر پتا بھی بال کا باقی مسلماں بن کے دھوکے دے رہا ہے اہل ایماں کویہی ہے ایک پہلے وقت کا بہروپیا باقی غضب ہے نیچری حُسنِ خرد پر ناز کرتے ہیںنہیں کیا شیر پور میں کوئی ان کے جوڑ کا باقی علی گڑھ کے سفر میں صرف کر دی دولتِ ایماںبتاؤ مجھ کو زیر مدِّ باقی کیا رہا باقی گیا ایمان تو داڑھی بھی پیچھے سے روانہ کیپرانے رنگ کا اب کیوں رہے کوئی پتا باقی بپا بوٹے بہ بر کوٹے و بر سر سُرخ سر پوشےکہو اب بھی مسلماں ہونے میں ۔۔۔
مزیدنامیؔ خستہ نہ نالم بچہ روکوہ افتاد دریغا افتاد دلم از فرقت استادم سوختازلبم چوں نہ برآید فریاد ہر کہ پُرسید زمن باعث غمگفتمش سوئے جناں رفت استاد سال فوتش ز جوابم جوئیددیگر امروز نمید ارم یاد ۱۳۲۶ھتمت٭ ۔۔۔
مزیدگلریز بنا ہے شاخِ خامہ فردوس بنا ہوا ہے نامہ نازل ہیں وہ نور کے مضامیںیاد آتے ہیں طور کے مضامیں سینہ ہے تجلّیوں کا مسکنہے پیشِ نگاہ دشتِ ایمن توحید کے لطف پا رہا ہوںوحدت کے مزے اُڑا رہا ہوں دل ایک ہے دل کا مدعا ایکایماں ہے مرا کہ ہے خدا ایک وہ ایک نہیں جسے گنیں ہموہ ایک نہیں جو دو سے ہو کم دو ایک سے مل کے جو بنا ہووہ ایک کسی کا کب خدا ہو اَحْوَل ہے جو ایک کو کہے دواندھوں سے کہو سنبھل کے دیکھو اُس ایک نے دو جہاں بنائےاک ’کُنْ‘ سے سب انس و جاں بنائے اوّل ہے وہی، وہی ہے آخرباطن ہے وہی، وہی ہے ظاہر ظاہر نے عجب سماں دکھایاموجود ہے اور نظر نہ آیا کس دل میں نہیں جمال اُس کاکس سر میں نہیں خیال اُس کا وہ ’حبلِ ورِید‘ سے قریں ہےہاں تاب نظر میں نہیں ہے فرمان ہے یُؤمِنُونَ بِالْغَیْبنادیدہ وہ نورِ حق ہے لارَیْب آنکھوں میں نظر، نظر کناں ہےآنکھیں تو کہیں، ۔۔۔
مزیدآیا ہے جو ذکرِ مہ جبیناںقابو میں نہیں دلِ پریشاں یاد آئی تجلیِ سرِ طورآنکھوں کے تلے ہے نور ہی نور یا رب یہ کدھر سے چاند نکلااُٹھا ہے نقاب کس کے رُخ کا کس چاند کی چاندنی کھِلی ہےیہ کس سے میری نظر ملی ہے ہے پیشِ نگاہ جلوہ کس کایا رب یہ کہاں خیال پہنچا آیا ہوں میں کس کی رہ گزر میںبجلی سی چمک گئی نظر میں آنکھوں میں بسا ہے کس کا عالمیاد آنے لگا ہے کس کا عالم اب میں دلِ مضطرب سنبھالوںیا دید کی حسرتیں نکالوں اللہ! یہ کس کی انجمن ہےدنیا میں بہشت کا چمن ہے ہر چیز یہاں کی دل رُبا ہےجو ہے وہ ادھر ہی دیکھتا ہے شاہانِ زمانہ آ رہے ہیںبستر اپنے جما رہے ہیں پروانوں نے انجمن کو چھوڑابلبل نے چمن سے منہ کو موڑا ہے سرو سے آج دُور قمریآئینوں کو چھوڑ آئی طوطی عالم کی جھکی ہوئی ہے گردنپھیلے ہیں ہزاروں دست و دامن مظلوم سنا رہے ہیں فریادہے لائقِ لطف حالِ ناشاد بے داد و ستم کی داد دیجیےلل۔۔۔
مزیداے ساقیِ مہ لقا کہاں ہےمے خوار کے دل رُبا کہاں ہے بڑھ آئی ہیں لب تک آرزوئیںآنکھوں کو ہیں مَے کی جستجوئیں محتاج کو بھی کوئی پیالہداتا کرے تیرا بول بالا ہیں آج بڑھے ہوئے اِرادےلا منہ سے کوئی سبُو لگا دے سر میں ہیں خمار سے جو چکرپھرتا ہے نظر میں دَورِ ساغر دے مجھ کو وہ ساغرِ لبالببس جائیں مہک سے جان و قالب بُو زخم جگر کے دیں جو انگورہوں اہلِ زمانہ نشہ میں چُور کیف آنکھوں میں دل میں نور آئیںلہراتے ہوئے سُرور آئیں جوبن پہ اَداے بے خودی ہوبے ہوش فداے بے خودی ہو کچھ ابرو ہوا پہ تو نظر کرہاں کشتیِ مے کا کھول لنگر مے خوار ہیں بے قرار ساقیبیڑے کو لگا دے پار ساقی مے تاک رہے ہیں دیدۂ وادیوانہ ہے دل اسی پری کا منہ شیشوں کے جلد کھول ساقیقُلْقُل کے سنا دے بول ساقی یہ بات ہے سخت حیرت انگیزپُنْبَہ سے رُکی ہے آتشِ تیز جب تک نہ وہاں شیشہ ہو واہو وصف شراب سے خبر کیا تا مرد سخن نگفت۔۔۔
مزیدتحفہ‘ کہ ہے گوہر لآلیفرماتے ہیں اس میں یوں معالی جب زیب زماں ہوئے وہ سرورتھی ساٹھ برس کی عمر مادر یہ بات نہیں کسی پہ مخفییہ عمر ہے عمرِ نا اُمیدی اس اَمر سے ہم کو کیا عجب ہومولود کی شان کو تو دیکھو نومید کے درد کی دوا ہےمایوس دلوں کا آسرا ہے کیا کیجیے بیان دستگیریہے جوش پہ شانِ دستگیری گرتے ہوؤں کو کہیں سنبھالاڈوبے ہوؤں کو کہیں نکالا سب داغ الم مٹا دیے ہیںبیٹھے ہوئے دل اُٹھا دیے ہیں نومید دلوں کی ٹیک ہے وہامداد میں آج ایک ہے وہ یاوَر جو نصیب ہے ہماراقسمت سے ملا ہے کیا سہارا طوفانِ اَلم سے ہم کو کیا باکہے ہاتھ میں کس کا دامنِ پاک آفت کا ہجوم کیا بلا ہےکس ہاتھ میں ہاتھ دے دیا ہے بالفرض اگر غلامِ سرکاردریاے الم میں ہو گرفتار خود بحر ہو اس خیال میں گُمدُکھ دے نہ اسے میرا تلاطُم سوچے یہی سیل کی روانیپھر جائے نہ آبرو پہ پانی طوفان ہو اس قلق میں بے تابموجیں بنیں ماہی۔۔۔
مزید