/ Thursday, 13 March,2025


استادِ زمن حضرت مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی رحمتہ اللہ تعا لٰی علیہ   (121)





تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہوگا

تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گاہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہو گا گناہگار پہ جب لطف آپ کا ہو گاکیا بغیر کیا ، بے کیا کیا ہو گا خدا کا لطف ہوا ہو گا دستگیر ضرورجو گرتے گرتے ترا نام لے لیا ہو گا دکھائی جائے گی محشر میں شانِ محبوبیکہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہو گا خداے پاک کی چاہیں گے اگلے پچھلے خوشیخداے پاک خوشی اُن کی چاہتا ہو گا کسی کے پاوں کی بیڑی یہ کاٹتے ہوں گے کوئی اسیرِغم اُن کو پکارتا ہو گا کسی طرف سے صدا آئے گی حضور آؤنہیں تو دَم میں غریبوں کا فیصلہ ہو گا کسی کے پلّہ پہ یہ ہوں گے وقتِ وزنِ عملکوئی اُمید سے منہ اُن کا تک رہا ہو گا کوئی کہے گا دہائی ہے یَا رَسُوْلَ اﷲتو کوئی تھام کے دامن مچل گیا ہو گا کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوے جحیموہ اُن کا راستہ پھِر پھِر کے دیکھتا ہو گا شکستہ پا ہوں مرے حال کی خبر کردوکوئی کسی سے یہ رو رو کے کہہ رہا ہو گا خدا کے واسطے جلد اُن ۔۔۔

مزید

یہ اکرام ہے مصطفے پر خدا کا

یہ اکرام ہے مصطفےٰ پر خدا کاکہ سب کچھ خدا کا ہوا مصطفےٰ کا یہ بیٹھا ہے سکہ تمہاری عطا کاکبھی ہاتھ اُٹھنے نہ پایا گدا کا چمکتا ہوا چاند ثور و حرا کااُجالا ہوا بُرجِ عرشِ خدا کا لحد میں عمل ہو نہ دیوِ بلا کاجو تعویذ میں نقش ہو نقشِ پا کا جو بندہ خدا کا وہ بندہ تمہاراجو بندہ تمہارا وہ بندہ خدا کا مرے گیسوؤں والے میں تیرے صدقےکہ سر پر ہجومِ بَلا ہے بَلا کا ترے زیرِ پا مسندِ ملکِ یزداںترے فرق پر تاجِ مُلکِ خدا کا سہارا دیا جب مرے ناخدا نےہوئی ناؤ سیدھی پھرا رُخ ہوا کا کیا ایسا قادر قضا و قدر نےکہ قدرت میں ہے پھیر دینا قضا کا اگر زیرِ دیوارِ سرکارِ بیٹھوںمرے سر پہ سایہ ہو فضل خدا کا ادب سے لیا تاجِ شاہی نے سر پریہ پایا ہے سرکار کے نقشِ پا کا خدا کرنا ہوتا جو تحتِ مشیّتخدا ہو کر آتا یہ بندہ خدا کا اَذاں کیا جہاں دیکھو ایمان والوپسِ ذکرِ حق ذکر ہے مصطفیٰ کا کہ پہلے زباں حمد سے پا۔۔۔

مزید

سرصبح سعادت نے گریباں سے نکالا

سر صبحِ سعادت نے گریباں سے نکالاظلمت کو ملا عالمِ اِمکاں سے نکالا پیدائشِ محبوب کی شادی میں خدا نےمدت کے گرفتاروں کو زِنداں سے نکالا رحمت کا خزانہ پئے تقسیم گدایاںاﷲ نے تہ خانۂ پنہاں سے نکالا خوشبو نے عنادِل سے چھڑائے چمن و گلجلوے نے پتنگوں کو شبستاں سے نکالا ہے حسنِ گلوے مہِ بطحا سے یہ روشناب مہر نے سر اُن کے گریباں سے نکالا پردہ جو ترے جلوۂ رنگیں نے اُٹھایاصَرصَر کا عمل صحنِ گلستاں سے نکالا اُس ماہ نے جب مہر سے کی جلوہ نمائیتاریکیوں کو شامِ غریباں سے نکالا اے مہرِ کرم تیری تجلی کی اَدا نےذرّوں کو بلاے شبِ ہجراں سے نکالا صدقے ترے اے مردمکِ دیدۂ یعقوبیوسفؔ کو تری چاہ نے کنعاں سے نکالا ہم ڈوبنے ہی کو تھے کہ آقا کی مدد نےگِرداب سے کھینچا ہمیں طوفاں سے نکالا اُمت کے کلیجے کی خلِش تم نے مٹائیٹوٹے ہوئے نشتر کو رَگِ جاں سے نکالا اِن ہاتھوں کے قربان کہ اِن ہاتھوں سے تم نےخارِ رہِ ۔۔۔

مزید

اگر قسمت سے میں ان کی گلی میں خاک ہوجاتا

اگر قسِمت سے میں اُن کی گلی میں خاک ہو جاتاغمِ کونین کا سارا بکھیڑا پاک ہو جاتا جو اے گل جامۂ ہستی تری پوشاک ہو جاتاتو خارِ نیستی سے کیوں اُلجھ کر چاک ہو جاتا جو وہ اَبرِ کرم پھر آبروے خاک ہو جاتاتو اُس کے دو ہی چھینٹوں میں زمانہ پاک ہو جاتا ہواے دامنِ رنگیں جو ویرانے میں آ جاتیلباسِ گل میں ظاہر ہر خس و خاشاک ہو جاتا لبِ جاں بخش کی قربت حیاتِ جاوداں دیتیاگر ڈورا نفس کا ریشۂ مسواک ہو جاتا ہوا دل سوختوں کو چاہیے تھی اُن کے دامن کیالٰہی صبحِ محشر کا گریباں چاک ہو جاتا اگر دو بوند پانی چشمۂ رحمت سے مل جاتامری ناپاکیوں کے میل دُھلتے پاک ہو جاتا اگر پیوند ملبوسِ پیمبر کے نظر آتےترا اے حُلّۂ شاہی کلیجہ چاک ہو جاتا جو وہ گل سُونگھ لیتا پھول مرجھایا ہوا بلبلبہارِ تازگی میں سب چمن کی ناک ہو جاتا چمک جاتا مقدر جب دُرِ دنداں کی طلعت سےنہ کیوں رشتہ گہر کا ریشۂ مسواک ہو جاتا عدو کی آنک۔۔۔

مزید

دشمن ہے گلے کا ہار آقا

دشمن ہے گلے کا ہار آقالُٹتی ہے مری بہار آقا تم دل کے لیے قرار آقاتم راحتِ جانِ زار آقا تم عرش کے تاجدار مولیٰتم فرش کے با وقار آقا دامن دامن ہوائے دامنگلشن گلشن بہار آقا بندے ہیں گنہگار بندےآقا ہیں کرم شعار آقا اِس شان کے ہم نے کیا کسی نےدیکھے نہیں زینہار آقا بندوں کا اَلم نے دل دُکھایااَور ہو گئے بے قرار آقا آرام سے سوئیں ہم کمینےجاگا کریں با وقار آقا ایسا تو کہیں سنا نہ دیکھابندوں کا اُٹھائیں بار آقا جن کی کوئی بات تک نہ پوچھےاُن پر تمھیں آئے پیار آقا پاکیزہ دلوں کی زینت ایمانایمان کے تم سنگار آقا صدقہ جو بٹے کہیں سلاطیںہم بھی ہیں اُمیدوار آقا چکرا گئی ناؤ بے کسوں کی!آنا مرے غمگسار آقا اﷲ نے تم کو دے دیا ہےہر چیز کا اختیار آقا ہے خاک پہ نقشِ پا تمہاراآئینہ بے غبار آقا عالم میں ہیں سب بنی کے ساتھیبگڑی کے تمھیں ہو یار آقا سرکار کے تاجدار بندےسرکار۔۔۔

مزید

واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا

واہ کیا مرتبہ ہوا تیراتو خدا کا خدا ہوا تیرا تاج والے ہوں اِس میں یا محتاجسب نے پایا دیا ہوا تیرا ہاتھ خالی کوئی پھرا نہ پھرےہے خزانہ بھرا ہوا تیرا آج سنتے ہیں سننے والے کلدیکھ لیں گے کہا ہوا تیرا اِسے تو جانے یا خدا جانےپیش حق رُتبہ کیا ہوا تیرا گھرہیں سب بند دَرہیں سب تیغایک دَر ہے کھلا ہوا تیرا کام توہین سے ہے نجدی کوتو ہوا یا خدا ہوا تیرا تاجداروں کا تاجدار بنابن گیا جو گدا ہوا تیرا اور میں کیا لکھوں خدا کی حمدحمد اُسے وہ خدا ہوا تیرا جو ترا ہو گیا خدا کا ہواجو خدا کا ہوا ہوا تیرا حوصلے کیوں گھٹیں غریبوں کےہے اِرادہ بڑھا ہوا تیرا ذات بھی تیری انتخاب ہوئینام بھی مصطفیٰ ہوا تیرا جسے تو نے دیا خدا نے دیادَین رب کا دیا ہوا تیرا ایک عالم خدا کا طالب ہےاور طالب خدا ہوا تیرا بزمِ اِمکاں ترے نصیب کھلےکہ وہ دُولھا بنا ہوا تیرا میری طاعت سے میرے جرم فزوںلطف سب سے بڑھا ہوا تیر۔۔۔

مزید

معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا

معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیاجب اِشارہ ہو گیا مطلب ہمارا ہو گیا ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھاغم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنےتیری ہیبت سے فلک کا مہ دوپارا ہو گیا اللہ اللہ محو حُسنِ روے جاناں کے نصیببند کر لیں جس گھڑی آنکھیں نظارا ہو گیا یوں تو سب پیدا ہوئے ہیں آپ ہی کے واسطےقسمت اُس کی ہے جسے کہہ دو ہمارا ہو گیا تیرگی باطل کی چھائی تھی جہاں تاریک تھااُٹھ گیا پردہ ترا حق آشکارا ہو گیا کیوں نہ دم دیں مرنے والے مرگِ عشقِ پاک پرجان دی اور زندگانی کا سہارا ہو گیا نام تیرا، ذکر تیرا، تو، ترا پیارا خیالناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا ذرّۂ کوے حبیب‘ اللہ رے تیرے نصیبپاؤں پڑ کر عرش کی آنکھوں کا تارا ہو گیا تیرے صانع سے کوئی پوچھے ترا حُسن و جمالخود بنایا اور بنا کر خود ہی پیارا ہو گیا ہم کمینوں کا اُنھیں آرام تھا اِتن۔۔۔

مزید

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیقِ اکبر کا

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کاہے یارِ غار محبوبِ خدا صدیق اکبر کا الٰہی رحم فرما خادمِ صدیق اکبر ہوںتری رحمت کے صدقے واسطہ صدیق اکبر کا رُسل اور انبیا کے بعد جو افضل ہو عالم سےیہ عالم میں ہے کس کا مرتبہ صدیق اکبر کا گدا صدیق اکبر کا خدا سے فضل پاتا ہےخدا کے فضل سے میں ہوں گدا صدیق اکبر کا نبی کا اور خدا کا مدح گو صدیق اکبر ہےنبی صدیق اکبر کا خدا صدیق اکبر کا ضیا میں مہر عالم تاب کا یوں نام کب ہوتانہ ہوتا نام گر وجہِ ضیا صدیق اکبر کا ضعیفی میں یہ قوت ہے ضعیفوں کو قوی کر دیںسَہارا لیں ضعیف و اَقویا صدیق اکبر کا خدا اِکرام فرماتا ہے اَتْقٰی کہہ کے قرآں میںکریں پھر کیوں نہ اِکرام اتقیا صدیق اکبر کا صفا وہ کچھ ملی خاک سرِ کوئے پیمبر سےمصَفّا آئینہ ہے نقشِ پا صدیق اکبر کا ہوئے فاروق و عثمان و علی جب داخلِ بیعتبنا فخر سلاسِل سلسلہ صدیق اکبر کا مقامِ خوابِ راحت چین سے آرام کر۔۔۔

مزید

نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا

نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم ساملا تقدیر سے حاجت روا فاروقِ اعظم سا ترا رشتہ بنا شیرازۂ جمعیتِ خاطرپڑا تھا دفترِ دینِ کتابُ اﷲ برہم سا مراد آئی مرادیں ملنے کی پیاری گھڑی آئیملا حاجت رَوا ہم کو درِ سلطانِ عالم سا ترے جود و کرم کا کوئی اندازہ کرے کیوں کرترا اِک اِک گدا فیض و سخاوت میں ہے حاتم سا خدارا مہر کر اے ذرّہ پرور مہر نورانیسیہ بختی سے ہے روزِ سیہ میرا شبِِ غم سا تمہارے دَر سے جھولی بھر مرادیں لے کے اُٹھیں گےنہ کوئی بادشاہ تم سا نہ کوئی بے نوا ہم سا فدا اے اُمّ کلثوم آپ کی تقدیر یاوَر کےعلی بابا ہوا ، دُولھا ہوا فاروق اکرم سا غضب میں دشمنوں کی جان ہے تیغِ سر افگن سےخروج و رفض کے گھر میں نہ کیوں برپا ہو ماتم سا شیاطیں مضمحل ہیں تیرے نامِ پاک کے ڈر سےنکل جائے نہ کیوں رفّاض بد اَطوار کا دم سا منائیں عید جو ذی الحجہ میں تیری شہادت کیالٰہی روز و ماہ و سن اُنھیں گزرے۔۔۔

مزید

اللہ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کا

اﷲ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کامحبوبِ خدا یار ہے عثمانِ غنی کا رنگین وہ رُخسار ہے عثمان غنی کابلبل گل گلزار ہے عثمان غنی کا گرمی پہ یہ بازار ہے عثمانِ غنی کااﷲ خریدار ہے عثمانِ غنی کا کیا لعل شکر بار ہے عثمانِ غنی کاقند ایک نمک خوار ہے عثمانِ غنی کا سرکار عطا پاش ہے عثمانِ غنی کادربار دُرر بار ہے عثمانِ غنی کا دل سوختو ہمت جگر اب ہوتے ہیں ٹھنڈےوہ سایۂ دیوار ہے عثمانِ غنی کا جو دل کو ضیا دے جو مقدر کو جلا دےوہ جلوۂ دیدار ہے عثمانِ غنی کا جس آئینہ میں نورِ الٰہی نظر آئےوہ آئینہ رُخسار ہے عثمانِ غنی کا سرکار سے پائیں گے مرادوں پہ مرادیںدربار یہ دُر بار ہے عثمانِ غنی کا آزاد، گرفتارِ بلاے دو جہاں ہےآزاد، گرفتار ہے عثمانِ غنی کا بیمار ہے جس کو نہیں آزارِ محبتاچھا ہے جو بیمار ہے عثمانِ غنی کا اﷲ غنی حد نہیں اِنعام و عطا کیوہ فیض پہ دربار ہے عثمانِ غنی کا رُک جائیں مرے کام حسن۔۔۔

مزید

اے حب وطن ساتھ نہ یوں سوئے نجف جا

اے حبِّ وطن ساتھ نہ یوں سوے نجف جاہم اور طرف جاتے ہیں تو اور طرف جا چل ہند سے چل ہند سے چل ہند سے غافل !اُٹھ سوے نجف سوے نجف سوے نجف جا پھنستا ہے وبالوں میں عبث اخترِ طالعسرکار سے پائے گا شرف بہر شرف جا آنکھوں کو بھی محروم نہ رکھ حُسنِ ضیا سےکی دل میں اگر اے مہِ بے داغ و کلف جا اے کُلفتِ غم بندۂ مولیٰ سے نہ رکھ کامبے فائدہ ہوتی ہے تری عمر تلف جا اے طلعتِ شہ آ تجھے مولیٰ کی قسم آاے ظلمتِ دل جا تجھے اُس رُخ کا حَلف جَا ہو جلوہ فزا صاحبِ قوسین کا نائبہاں تیرِ دعا بہرِ خدا سُوے ہدف جا کیوں غرقِ اَلم ہے دُرِ مقصود سے منہ بھرنیسانِ کرم کی طرف اے تشنہ صدف جا جیلاں کے شرف حضرتِ مولیٰ کے خلف ہیںاے نا خلف اُٹھ جانبِ تعظیمِ خلف جا تفضیل کا جویا نہ ہو مولیٰ کی وِلا میںیوں چھوڑ کے گوہر کو نہ تو بہر خذف جا مولیٰ کی امامت سے محبت ہے تو غافلاَربابِ جماعت کی نہ تو چھوڑ کے صف جا کہہ دے کوئی ۔۔۔

مزید

سر سے پا تک ہر ادا ہے لاجواب

سر سے پا تک ہر اَدا ہے لاجوابخوبرویوں میں نہیں تیرا جواب حُسن ہے بے مثل صورت لاجوابمیں فدا تم آپ ہو اپنا جواب پوچھے جاتے ہیں عمل میں کیا کہوںتم سکھا جاؤ مرے مولیٰ جواب میری حامی ہے تری شانِ کریمپُرسشِ روزِ قیامت کا جواب ہے دعائیں سنگِ دشمن کا عوضاِس قدر نرم ایسے پتھر کا جواب پلتے ہیں ہم سے نکمّے بے شمارہیں کہیں اُس آستانہ کا جواب روزِ محشر ایک تیرا آسراسب سوالوں کا جوابِ لاجواب میں یدِ بیضا کے صدقے اے کلیمپر کہاں اُن کی کفِ پا کا جواب کیا عمل تو نے کیے اِس کا سوالتیری رحمت چاہیے میرا جواب مہر و مہ ذرّے ہیں اُن کی راہ کےکون دے نقشِ کفِ پا کا جواب تم سے اُس بیمار کو صحت ملےجس کو دے دیں حضرت عیسیٰ جواب دیکھ رِضواں دشتِ طیبہ کی بہارمیری جنت کا نہ پائے گا جواب شور ہے لطف و عطا کا شور ہےمانگنے والا نہیں سنتا جواب جرم کی پاداش پاتے اہلِ جرماُلٹی باتوں کا نہ ہو سیدھا جواب پر ت۔۔۔

مزید