جمعہ , 14 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Friday, 05 December,2025


منقبت   (235)





شاہ جیلانی میاں

منقبت بسلسلۂ وصال حضرت والد ماجد قدس سرہ العزیز --------------------------- حامیٔ دین ہدیٰ تھے شاہ جیلانی میاں بالیقیں مردِ خدا تھے شاہ جیلانی میاں   مثلِ گل ہنگامِ رخصت مسکراتے ہی رہے پیکرِ صبر و رضا تھے شاہ جیلانی میاں   چل بسے ہم کو دکھا کر راہ سیدھی خلد کی دینِ حق کے رہنما تھے شاہ جیلانی میاں   ہجر کی نہ لائے تاب آخرش جاہی ملے عاشق خیرالوریٰ تھے شاہ جیلانی میاں   ان کے ہر ارشاد سے ہر دل کی ہوتی تھی جلا مظہر شانِ خدا تھے شاہ جیلانی میاں   مال و زر سب کچھ نچھاور راہِ حق میں کر گئے کیسے مخلص پیشوا تھے شاہ جیلانی میاں   ہم کو ،بِن دیکھے تمہیں اب کیسے چین آئے حضور تم شکیبِ اقرباء تھے شاہ جیلانی میاں   صبر و تسلیم و رضا کی اب ہمیں توفیق دے تیرے بندے اے خدا تھے شاہ جیلانی میاں   شور کیسا ہے یہ برپا غور سے اخترؔ سنو پَرتوِ ا۔۔۔

مزید

مفتیٔ اعظم کے دلبند

بموقع وفات حسرت آیات خال محترم جناب امید صاحب رضوی ---------------------------------- یہ ادارہ جس کو کہئے گلستانِ علم و فن ہوگیا رخصت سے تیری موردِ رنج و محن   منظرِ اسلام کے تھے کارکن تم نامور خدمتِ اسلام کی تھی تم کو کیا سچی لگن   مفتیٔ اعظم کے دلبند و جگر پارے تھے تم کیسے دیکھیں ان کو غمگیں ہائے سب اہل سنن   ایک وہ ہیں جو مرے تو جاوداں ہو کر مرے ایک وہ زندہ ہیں گویا نعشِ بے گور و کفن   سو رہے ہیں لحد میں کچھ اس طرح وہ چین سے ناز سے بے فکر ہوکر جیسے سوجائے دلہن   مرضیٔ مولیٰ ہے بندو! صبر سے کچھ کام لو یہ دعا مانگو کہ ان کو بخش دے وہ ذوالمنن   شدتِ غم سے اعزاء اس قدر بجھ سے گئے چاند سے چہروں کو اخترؔ لگ گیا جیسے گہن ٭…٭…٭۔۔۔

مزید

مجاہد ملت کو ڈھونڈئیے

منقبت درشانِ حضور مجاہدِ ملت علیہ الرحمۃ ---------------- دل نے کہا مجاہدِ ملت کو ڈھونڈئیے لے کر چراغ شاہِ ولایت کو ڈھونڈئیے   میں نے کہا کہ سن اے دلِ مبتلائے غم اپنی یہ کب مجال کہ پاجائیں ان کو ہم   ہم زیرِ آسماں انہیں یوں دیکھتے رہے وہ کب کے آسماں کے پرے خلد میں گئے   تم کیا گئے مجاہدِ ملت جہاں گیا عالِم کی موت کیا ہے عالَم کی ہے فنا   میں رحلتِ مجاہد ملت کو کیا کہوں یوں سمجھو گر گیا کوئی اسلام کا ستوں   ہر سو یہ کہہ رہے ہیں عنادِل چمن چمن اے بلبلِ مدینہ کہاں ہے تو خوش دہن   وہ یادگارِ حجۃالاسلام اب نہیں اندوہگیں ہے آج شبستانِ علم دیں   نسرینِ گلستان آں صدرالشریعہ بود بوئے خودش گذاشتہ اندر چمن بود   خورشیدِ سنّیت نے اَہ چادر جو اوڑھ لی ظلمت میں قافلے کی وہ رفتار تھم گئی   پیک ندیٰ و غفراں ، ان کی وفات تھی ۱۴۰۱ ۔۔۔

مزید

تحسین رضا واقعی تحسین رضا ہے

گل زارِ حسن کا گل رنگین ادا ہے تحسین رضا واقعی تحسین رضا ہے   توصیف میں اس کی جو کہوں اس سے سوا ہے تحسین رضا واقعی تحسین رضا ہے   نام اس کا بہت خوب ہے خود اس کی ثنا ہے تحسین رضا واقعی تحسین رضا ہے   رحمانی ضیاؤں کی رِدا میں وہ چھپا ہے تحسین رضا سرحد تحسیں سے ورا ہے   اب عقل کی پرواز اسے چھو نہیں سکتی تحسین رضا ایسی بلندی کا سما ہے   فردوس کے باغوں سے ادھر مل نہیں سکتا وہ مالکِ جنت کی محبت میں گما ہے   سدرہ سے کوئی پوچھے ذرا اس کی بلندی وہ رتبۂ بالا مرے تحسیں کو ملا ہے ٭…٭…٭۔۔۔

مزید

منظر اسلام

منبع نورِ رسالت منظرِ اسلام ہے درس گاہِ علم و سنت منظرِ اسلام ہے قبلہ گاہِ دین و ملت منظرِ اسلام ہے مرکزِ اصلاحِ خلقت منظرِ اسلام ہے یادگارِ اعلیٰ حضرت منظرِ اسلام ہے ٭ ایضاً ٭ دور سے آتا یہاں ہر ایک تِشنہ کام ہے بادۂ حبِ نبی کا اس کو ملتا جام ہے آپ کٹ جاتا ہے اس سے جو بھی نافر جام ہے منکروں کے واسطے یہ تیغِ خوں آشام ہے جیسا اس کا نام ہے ویسا ہی اس کا کام ہے۔۔۔

مزید

سیدی مرشدی شاہ احمد رضا

سیّدی مُرشِدی شاہ احمد رضانازشِ اتقاء اَصفیاء اَولیاءعشقِ احمد سے دل جس نے روشن کیاجس کے صدقے ہمیں در مِلا غوث کااُس کے فیض و کرامت پہ لاکھوں سلاممصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام عِلمِ غیبِ نبی جس نے ثابت کیا اختیارِ نبی جس نے ثابت کیا اور جھوٹوں کو جھوٹا بھی ثابت کیاعشقِ احمد سے دل جس نے روشن کیا سیّدی اعلیٰ حضرت پہ لاکھوں سلام مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلامشمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام حجّتِ دینِ اسلام حامد رضاجن کا چہرہ تھا یا اِک حسیں چاند تھااِک نظر جس نے دیکھا اُنھیں کا ہُوامنکروں نے بھی کلمہ خدا کا پڑھا اُن کی نورانی صورت پہ لاکھوں سلاممصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلامشمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام میرے مُفتیِ اعظم شہ ِ مصطفیٰنائبِ غوثِ اعظم امام التقیٰابنِ احمد رضا مظہرِ اَولیاءہر ادا سے عیاں سنّتِ مصطفیٰ تاج دارِ شری۔۔۔

مزید

ادائے مصطفیٰ تم ہو رضائے مصطفیٰ تم ہو

ادائے مصطفیٰ تم ہو رضائے مصطفیٰ تم ہوہر اِک اَنوار سے اے مقتدا احمد رضا تم ہوشبیہِ حضرتِ غوث الوریٰ ابنِ رضا تم ہوجہانِ علم کے مُفتیِ اعظم مصطفیٰ تم ہوولی ابنِ ولی زندہ ولی ہو پارسا تم ہوسراپا زُہد ہو اور پیکرِ صدق و صفا تم ہوتمھارے ظاہر و باطن پہ نازاں پارسائی ہےجو خیرِ اَتقیا تم ہو تو نازِ اَصفیا تم ہو پِلا دو جامِ نوری اپنی نورانی نگاہوں سےکہ نوری مَے کدے کے میر، میرے ساقیا تم ہو  مِری دنیا و دیں کا ما حصل الفت تمھاری ہےقیامت میں مِرے ماویٰ و ملجا آسرا تم ہو کسی کو کیوں سناؤں داستاں اپنے مصائب کیمِرے دُکھ کی دوا تم ہو مِرے مشکل کشا تم ہو مجھے توفیقِ صبر و استقامت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیکرِ صبر و رضا تم ہو(مکمل شعر دستیاب نہیں ہو سکا) اِسی میٹھی نظر سے دیکھ لو پھر اپنے منگتے کوکہ اس کی آرزو، حسرت، تمنّا، مدّعا تم ہو تمھاری ذات میں جلوے رضا، حامد رضا کے ہیںمِرے ح۔۔۔

مزید

منقبت امام حسین

خندہ پیشانی سے ہر صدمہ اُٹھاتے ہیں حسین عشق کے آداب دنیا کو سکھاتے ہیں حسین جب گذرتی ہے کسی دشوار منزل سے حیات دفعت اً ہر مبتلا کو یاد آتے ہیں حسین محسنِ انسانیت ہیں نو نہالِ مصطفیٰﷺ ظلم کی ظلمت کو دنیا سے مٹاتے ہیں حسین خاک میں مل جائے گا اک آن میں تیرا غرور اے گروہِ اَشقیا تشریف لاتے ہیں حسین کیوں نہ ہوگی ہم گنہ گاروں کی بخشش حشر میں سر ہتھیلی پر لیے تشریف لاتے ہیں حسین موجِ کوثر جس پہ قرباں اس مقدس خون سے داستانِ عشق کو رنگیں بناتے ہیں حسین  ۔۔۔

مزید

ذی قدر تراب الحق، ذی جاہ تراب الحق

ذی قدر تراب الحق، ذی جاہ تراب الحق اسرارِ شریعت کے، آگاہ تراب الحق   دکھلائے زمانے کو افکار کے وہ جوہر حیرت سے پکار اُٹھے، سب واہ تراب الحق   کیا سوزِ بلالی تھا کیا جذبِ اویسی تھا تو عاشق صادق تھا، واللہ تراب الحق   کردار کے جلووں میں کھویا تھا جہاں سارا افسوس ہوئے رخصت، ناگاہ تراب الحق   سَکتے میں زمانہ ہے، رحلت کی خبر سن کر غمگیں ہیں اہل حق، سب آہ! تراب الحق   تو فکرِ رضا کا اک،بے باک مجاہد تھا فرقت ہے تری ہم کوِ جانکاہ تراب الحق   ہر دشمن ایماں پر، غالب تھی تری جرأت ناکام رہے سارے، بدخواہ، تراب الحق   مسلک کی حفاظت سے، پیچھے نہ ہٹے تا عمر تجھ پر نہ چلا جبر و اکراہ تراب الحق   بڑھ چڑھ کے سدا تو نے ملت کی حمایت کی کس درجہ تھی ملت کی پرواہ تراب الحق   مدھم  نہ کبھی ہوں گے جلوے تیری حکمت کے تو نیر ملت ہے اے شاہ تراب الحق ۔۔۔

مزید

اک مہر شریعت بھی تھے شاہ تراب الحق

اک مہرِ شریعت بھی تھے شاہ تُراب الحق اور ماہ ِ طریقت بھی تھے شاہ تُراب الحق   تھے مفتیِ اعظم کے اک پیارے خلیفہ بھی اور اُن ہی سے بیعت بھی تھے شاہ تُراب الحق   اور ابنِ ضیاءُالدیں اور مصلحِ دیں شہ کا فیضانِ خلافت بھی تھے شاہ تُراب الحق   جو قادری نسبت کے فیضان کا چشمہ ہو وہ پیرِ طریقت بھی تھے شاہ تُراب الحق   مشہور ہے ساداتِ جیلاں میں نسب اُن کا سو فخرِ سِیادت بھی تھے شاہ تُراب الحق   تقریر سے اپنی جو دل جیت لیا کرتے وہ شاہ ِ خطابت بھی تھے شاہ تُراب الحق ہر ایک سے جو حُسنِ اخلاق سے پیش آتے   وہ صاحبِ شفقت بھی تھے شاہ تُراب الحق بے شک تھے وہ اک اعلیٰ نگرانِ ضیائے طیبہ   اخلاص کی دولت بھی تھے شاہ تُراب الحق اُن کو بھی ثوابِ عرس پہنچے کہ رضا خاں کے   اَفکار کی نکہت بھی تھے شاہ تراب الحق سرکارﷺ کی قربت ہو جنّت میں اُنھیں حاصل   اک۔۔۔

مزید

تھے مہرِ عرفان و حکمت

گل ہائے عقیدت بہ حضور حضرت مفتی محمد اشفاق احمد رضوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تھے مہرِ عرفان و حکمت مفتی اشفاق احمد رضوی اور ماہِ عمل بھی تھے حضرت مفتی اشفاق احمد رضوی   شیخِ تفسیر و محدّث تھے، وہ علمِ نبی کے وارث تھے تو کیوں نہ ہوں لائقِ صد حرمت مفتی اشفاق احمد رضوی   وہ ضیائے عشقِ رسول بھی تھے وہ باغِ وفا کے پھول بھی تھے تھے فدائے طیبہ بھی حضرت مفتی اشفاق احمد رضوی   وہ صاحبِ حسنِ سیرت تھے بامِ کردار کی رفعت تھے تھے ایک مثالی شخصیّت مفتی اشفاق احمد رضوی   نگرانِ ’’ضیائے طیبہ‘‘ تھے اور شانِ ’’ضیائے طیبہ‘‘ تھے وہ پیکرِ اخلاص و شفقت مفتی اشفاق احمد رضوی   جب پندرہ محرّم چودہ سو سینتیس سنِ ہجری آئی تو ہو گئے دنیا سے رخصت مفتی اشفاق احمد رضوی   بے شک یہ فضلِ رحمانی ہے کہ نؔدیم احمد نورانی ہے مَدّا۔۔۔

مزید

اے منادی دیوان حق

اے منادی دیوان حق اے سید شاہ تراب الحق روئے باطل ہے تجھ سے فق اے سید شاہ تراب الحق اے سید شاہ تراب الحق ہر دعا، پئے آمین نہیں صلح کلیت دین نہیں حق والوں کا یہ آئین نہیں درس احقاق ہے سخت ادق اے سید شاہ تراب الحق سرمایہ بیش بہا ہے تو قاری مصلح کی ادا ہے تو اعلیٰ حضرت کی صدا ہے تو قصر نجدیت تجھ سے شق اے سید شاہ تراب الحق فاسق فاجر اب رہبر ہیں گمرہ، ملت کے لیڈر ہیں علماء پر ذمے اکثر ہیں قل اعوذ برب الفلق اے سید شاہ تراب الحق کیسے فتور کا وقت آیا خود ڈستا ہے اپنا سایا نیکی کی پلٹ گئی کایا کل جو ناحق تھا  آج حق اے سید شاہ تراب الحق تو ہے وہ مرشد روحانی سمجھائے جو رمز قرآنی پا کر تری نسبت عرفانی ہیں سینکڑوں دل گو یا حق حق اے سید شاہ تراب الحق تو رہبر اہلنست ہے تیرے قدموں میں برکت ہے سچ بولنا تیری عادت ہے تیرے خطبوں سے ہے واضح حق اے سید شاہ تراب الحق اللہ کرے آئے وہ ۔۔۔

مزید