مادہ ھائے تاریخ (سال وصال) مُجدد دین و ملّت، امام اہل سُنّت عظیم الدرجت اعلیٰ حضرت الشّاہ احمد رضا خان القادری البریلوی از: محمد عبدالقیوم طارق سلطان پوری (حسن ابدال، اٹک) ۱۳۴۵ھ ’’مرکزِ تجلیّاتِ مُصطفیٰﷺ‘‘ ’’تجلّیاتِ عِشقِ طیبہ‘‘ ’’والہ المُختار طیبہ‘‘ ’’تصویرِ کمال محبتِ مُحمّدﷺ‘‘ ’’نعیمِ فیضانِ مُصطفیٰﷺ‘‘ ’’مکتبِ معرفت حبیب اللہﷺ‘‘ ’’شہنشاہِ کشورِ علم و ادب‘‘ ’’تابعِ قُرآن و سُنّت‘‘ ’’شمعِ رُشد و ہدایت‘‘ ’’بدر خُوبئ تقوٰی‘‘ ’’ذُوالفقار ۔۔۔۔۔ حیدر‘‘ ۱۹۲۱ء ’’ماہتابِ عظمتِ نبیﷺ‘‘ ’’پیکر خو۔۔۔
مزید
مادہ ھائے تاریخ (سال وصال) امام اہلِ سُنّت، اعلیٰ حضرت الشّاہ احمد رضا خاں القادری البریلوی قدس سرہ القوی سال وصال: ۱۳۴۵ھ/ ۱۹۲۱ء قرآنی مادۂ تاریخِ وصال ’’اُولٰئِکَ مَعَ الّذِیْنَ انْعَمَ اللہ عَلَیْھمْ‘‘(۱۳۴۵ھ) گلستانِ نَعت کا نغمہ سرا عاشقِ خیرُالوریٰ، احمد رضا حفِظِ نامُوسِ مُحمد مصطفیٰﷺ تھا یہ اُس کی زندگی کا مُدعّا تھا علَم بردار اِس تحریک کا جانِ ایماں ہے ولائے مصطفیٰﷺ عارفِ توحید، وحدت آشنا خُود کو کہتا تھا وہ عَبدِ مصطفیٰﷺ اُس کے اوصاف ِ دماغ و قلب کا مُعترف غیروں کو بھی ہونا پڑا وَلولہ انگیز مدّاحِ حبیبﷺ رُوح پرور اُس کے نغماتِ ثنا بے نیاز طعنہ و تحسینِ خلق کلمۂ حق برملا اُس نے کہا نکتہ دان و زیرک و عالی دماغ قُلزمِ دانش، سمندر علم کا کنزِ ایماں، مخزنِ عرفان ہے ترجمہ قرآں کا جو اُس نے کیا راست اُس کے قامت زیباپہ ہے ہر سعادت ہر فضیلت کی قبا مُنکر۔۔۔
مزید
قطعۂ تاریخ (سالِ وصال) امام اہلِ سنت، فیض در جت، اعلیٰ حضرت الشاہ احمد رضا خاں القادری البریلوی قدس سرہ العزیز ’’زیبا باغِ معرفتِ حق‘‘ ۱۹۲۱ء (سال وصال ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) اجملِ ہر جہاں کا دِلدادہ والۂ ماہِ انورِ طیبہ مصطفیٰﷺ کا غلام شاہ حشم عبد ذی شانِ سرور طیبہﷺ وہ ثنا خوانِ مصطفیٰﷺ بے مثال بے بدل وہ ثناگرِ طیبہ اس کا ممدوح اک ملیح عرب اس کا موصوف دلبر طیبہ اس کے اشعار نعت کا ہر شعر عکسِ زیبائے منظرِ طیبہ اس کی تحریر و گفتگو کا خصوص ذکر ایمان پرورِ طیبہ جان و دل سے عزیز تر اس کو ہر وہ شے جو ہے مظہرِ طیبہ فاتحِ مکہ کا مدیح نگار نعت گوئے مُظفّرِ طیبہ قائدِ کاروانِ عشقِ حبیب ترجمانِ قد آورِ طیبہ عاشق و واصف محمدﷺ تھا مثلِ حسّان منبر طیبہ اس کا سال وصال ہے طارقؔ ’’جلوہ ہائے پیغمبر طیبہ‘‘ ۱۳۴۰ھ۔۔۔
مزید
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی خدمت میں خراج عقید (الف) پروفیسر ڈاکٹر سید اظہر علی[1] حیران ہوں کہ کیسے میں کھولوں زبان کو میرا سلام ’’حضرت اعلیٰ‘‘ کی شان کو عالم کو اس امام کو خلد آشیان کو حیرت میں ڈال دیتا تھا جو نکتہ دان کو تھا اس کا فیض علم مگر سب کے واسطے مخصوص وہ نہ تھا کسی منصب کے واسطے عجمی بھی در پہ آئے‘ حجازی بھی آگئے شرعی معاملے لئے قاضی بھی آگئے کچھ تشنگانِ علم مجازی بھی آگئے الجھن کو لے کے طاق ریاضی بھی آگئے اک اک کو مطمئن کیا ہر اعتبار سے سیراب کتنے ہوگئے اس جوئے یار سے در اصل ہے حیات رضاؔ یک لالہ زار اور اسی میں رنگ و مہک کے گوشے ہیں بیشمار تصنیف و درس و جہد تصوف کے برگ و بار اور حسن نعت گوئی بھی یکتائے روزگار جو عشق مصطفیٰﷺ کے ہو ماتحت شخصیت پھر کیوں نہ ہو وہ ایک ہمہ جہت شخصیت اقبال نے جو دیکھی تھی جرات امام میں ترکی بہ ترکی فتوے کی ۔۔۔
مزید
منقبت درمدح اعلیحضرت مولانا احمد رضا خانصاحب قدس سرہٗ (جو کہ احمد رضا کانفرنس میں ۱۸ دسمبر ۱۹۸۲ ء کو پڑھی گئی) جلوہ ہے نور ہے کہ سراپا رضا کا ہے تصویرِ سنّیت ہے کہ چہرہ رضا کا ہے وادی رضا کی، کوہ ہمالہ رضا کا ہے جس سمت دیکھئیے وہ علاقہ رضا کا ہے دستار آرہی ہے زمیں پر جو سر اُٹھے اتنا بلند آج پھریرا رضا کا ہے کس کی مجال ہے کہ نظر بھی مِلا سکے دربارِ مصطفیٰﷺ میں ٹھکانا رضا کا ہے الفاظ بہہ رہے ہیں دلیلوں کی دھار پر چلتا ہوا قلم ہے کہ دھارا رضا کا ہے چھوتا ہے آسمان کو مینار عزم کا یعنی اٹل پہاڑ ارادہ رضا کا ہے نکتے عبارتوں سے ابھرتے ہیں خودبخود نقد و نظر پہ ایسا اجارہ رضا کا ہے دریا فصاحتوں کے رواں شاعری میں ہیں یہ سہل ممتنع ہے کہ لہجہ رضا کا ہے جو لکھ دیا ہے اس نے سند ہے وہ دین میں اہلِ قلم کی آبرو نکتہ رضا کا ہے اگلوں نے بھی لکھا ہے بہت علم دین پر جو کچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے ا۔۔۔
مزید
شاہِ اتقیاء قتیل حُسنِ تصویرِ مُحّمد مصطفیٰﷺ تم ہو شہیدِ عشقِ شاہ دیں شہِ احمدؔ رضا تم ہو بہارِ حسنِ فطرت، عشق کی رنگین فضا تم ہو فدایانِ رسالت کے دلوں کا مدّعا تم ہو گئے عشق حقیقت آفریں کی ابتدا تم ہو گئے سرمستئی الفت کی حضرت انتہا تم ہو کہا ہے رحمتہ للعالمیںﷺ خود جسکو یزداں نے شہا اُس جانِ رحمت پر دل و جاں سے فدا تم ہو دکھائی راہِ توحید و رسالت اک زمانے کو ہر اک گمراہ و گم گشتہ کے بیشک رہنُما تم ہو فقیہِ بے بدل اور مُفتئ دینِ نبی اللہ! سراپائے طریقت صاحبِ فقر و غنا تم ہو شہابِ ثاقبِ چرخِ معارف کی تجلّٰی اک خدا شاہد کہ خضرِ راہِ دینِ مجتبیٰ تم ہو نگاہِ ساقئی کوثر کے حسنِ کیف آور سے شناسائے رسالت، رمز آگاہِ خدا تم ہو نظر آتا ہر اک شے میں جسے تھا نورِ مصطفویﷺ وہ گرویدہ و شیدائے شہِ ارض و سما تم ہو ہیں جسکے زہد و تقویٰ کے فلک والے بھی سب قائل وہ فخرِ دین و ملّت ہو وہ شاہِ اتقیاء تم ہو علُوم۔۔۔
مزید
منقبتِ اعلیٰ حضرت (ایک منفرد انداز میں) نوٹ: اس منقبت کو درج ذیل چار طرح سے پڑھا جائے: (الف) پورے پورے مصرعے پڑھے جائیں۔ (ب) قوسین میں درج الفاظ قوسین سے قبل درج الفاظ کے ساتھ ملاکر پڑھے جائیں۔ (ج) قوسین میں درج الفاظ میں قوسین کے بعد لکھے الفاظ ملا کر پڑھے جائیں۔ (د) صرف قوسین میں درج الفاظ پڑھے جائیں۔ صابؔر سنبھلی اعلیٰ حضرت (علم کے دریا بحرِ شریعت) اعلیٰ حضرت صوفی صافی (صاحبِ تقویٰ، فخرِ ولایت) اعلیٰ حضرت فاضلِ اکمل (عاشقِ مولیٰ، گنجِ کرامت) اعلیٰ حضرت شیخِ طریقت (ہادئ اعظم، حامئ سنت) اعلیٰ حضرت اب تک بھی ہیں (ہر باطل فرقے پر آفت) اعلیٰ حضرت ہم پر (یعنی اہلِ سنن پر رب کی عنایت) اعلیٰ حضرت آخر دم تک (بد دینی سے ٹکر لی ہے) رب کے کرم سے آپ تھے بیشک (عہد میں اپنے دین کی طاقت) اعلیٰ حضرت ہے یہ حقیقت (اُس ظالم کو آپ سے کد ہے) بیشک بیشک فطرت سے ہے (حق کی مخالف جس کی طبیعت) اعلیٰ حضر۔۔۔
مزید