جمعہ , 14 جمادى الآخر 1447 ہجری (مدینہ منورہ)
/ Friday, 05 December,2025


منقبت   (235)





ھل ذاکم حبیب الرحمٰن ثاویا

منقبت درشان حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ ----------------- کیف الوصول صاحِ لدی الشامخ الأشم من أعجز الشوامخ العلیا من الشمم   مارُئِ یَ مثلہ فی الفضل والثناء فھوا السماء لیست من فوقھا سما   فاق المجاھدین ھذا المجاھد ھذا الفتی بذاکم شھد المشاھد   ان الذین قالو اللّٰہ ربنا عاشوا بموتھم فی دوحۃ المُنی   ھل ذاکم حبیب الرحمٰن ثاویا فی الرمس ام سراج فی الترب خافیا   شبھتہ ورمسا قد ضمّ جسمہ بالبدرحلّ فی برج فضمّہ   ما رمسہ سویٔ مراۃ عینہ یعلوہ بھجۃ وزین بزینہ   قالو متٰی مضٰی أرأیت اختر ؔ نادیتُ خاضَ فی النعماء یحبر۔۔۔

مزید

شہنشاہ شہیداں

منقبت شریف سیدنا امام عالی مقام حضرت حسین﷜ --------------------------- شجاعت ناز کرتی ہے جلالت ناز کرتی ہے وہ سلطانِ زماں ہیں ان پہ شوکت ناز کرتی ہے   صداقت ناز کرتی ہے امانت ناز کرتی ہے حمیت ناز کرتی ہے مروت ناز کرتی ہے   شہ خوباں پہ ہر خوبی و خصلت ناز کرتی ہے کریم ایسے ہیں وہ ان پر کرامت ناز کرتی ہے   جہانِ حسن میں بھی کچھ نرالی شان ہے ان کی نبی کے گل پہ گلزاروں کی زینت ناز کرتی ہے   شہنشاہِ شہیداں ہو ، انوکھی شان والے ہو حسین ابنِ علی تم پر شہادت ناز کرتی ہے   بٹھا کر شانۂ اقدس پہ کردی شان دوبالا نبی کے لاڈلوں پر ہر فضیلت ناز کرتی ہے   جبینِ ناز ان کی جلوہ گاہِ حسن ہے کس کی رخِ زیبا پہ حضرت کی ملاحت ناز کرتی ہے   نگاہِ ناز سے نقشہ بدل دیتے ہیں عالم کا ادائے سرورِ خوباں پہ ندرت ناز کرتی ہے   فدائی ہوں تو کس کا ہوں کوئی ۔۔۔

مزید

مسکراتے ہیں حسین

باغِ تسلیم و رضا میں گل کھلاتے ہیں حسین یعنی ہنگامِ مصیبت مسکراتے ہیں حسین   برقِ عالم سوز کا عالم دکھاتے ہیں حسین مسکرا کر قلعہ باطل کا گراتے ہیں حسین   مرضیٔ مولیٰ کی خاطر ہر ستم کو سہہ لیا کس خوشی سے بارِ غم دل پر اٹھاتے ہیں حسین ٭…٭…٭۔۔۔

مزید

یا غوث المدد

پیروں کے آپ پیر ہیں یا غوث المدد اہل صفا کے میر ہیں یا غوث المدد   رنج و الم کثیر ہیں یا غوث المدد ہم عاجز و اسیر ہیں یا غوث المدد   ہم کیسے جی رہے ہیں یہ تم سے کیا کہیں ہم ہیں الم کے تیر ہیں یا غوث المدد   تیرِ نظر سے پھیر دو سارے الم کے تیر کیا یہ الم کے تیر ہیں یا غوث المدد   تیرے ہی ہاتھ لاج ہے یا پیر دستگیر ہم تجھ سے دستگیر ہیں یا غوث المدد   اِدْفَعْ شَرَارَ الشَرْ یَا غَوْثَنَا الْاَبَرْ شر کے شرر خطیر ہیں یا غوث المدد   کس دل سے ہو بیانِ بے داد ظالماں ظالم بڑے شریر ہیں یا غوث المدد   اہلِ صفا نے پائی ہے تم سے رہِ صفا سب تم سے مستنیر ہیں یا غوث المدد   صدقہ رسولِ پاک کا جھولی میں ڈال دو ہم قادری فقیر ہیں یا غوث المدد   دل کی سنائے اخترؔؔ دل کی زبان میں کہتے یہ بہتے نیر ہیں یا غوث المدد ٭…٭…٭۔۔۔

مزید

حضرت مسعود غازی

منقبت در مدح حضرت سید سالار مسعود غازی علیہ الرحمہ ٓ--------------------------- حضرتِ مسعود غازی اختر برج ھدیٰ بے کسوں کا ہمنوا وہ سالکوں کا مقتدا   ساقیٔ صہبائے الفت راز دانِ معرفت بادشہ ایسا وہ جس کی ایک دنیا ہے گدا   آسمانِ نور کا ایسا درخشندہ قمر جس کی تابش سے منور سارا عالم ہوگیا   نائب شاہِ شہیداں وہ محافظ نور کا جس نے سینچا ہے لہو سے گلشن دین خدا   استقامت کا وہ کوہِ محکم و بالا تریں جس کے آگے کوہِ آفات و مصائب جھک گیا   سادگی میں بھی ہے وہ سردارِ خوباں دیکھئے کیا مقدس ذات ہے جس کی نرالی ہر ادا   نوشۂ بزمِ جناں وہ بندۂ ربِ جہاں حور و غلماں جس کی خدمت پر مقرر ہیں سدا   تیرے نورِ فیض سے خیرات دنیا کو ملی ہم کو بھی جَدِّ معظم کا ملے صدقہ شہا   یا الٰہی تیرے بندے کے درِ پر نور پر گردشِ ایام کا میں تجھ سے کرتا ہوں گلہ۔۔۔

مزید

مفتی اعظم دین خیر الوریٰ

منقبت در شانِ مفتیٔ اعظم ہند قبلہ دامت برکاتہم العالیہ ------------------------- مفتیٔ اعظمِ دینِ خیر الوریٰ جلوۂ شانِ عرفانِ احمد رضا   دیدِ احمد رضا ہے تمہیں دیکھنا ذاتِ احمد رضا کا ہو تم آئینہ   کیا کہوں حق کے ہو کیسے تم مقتدیٰ مقتدایانِ حق کرتے ہیں اقتدا   ان کی مدحت کو میں کس سے مانگوں زباں کیا مقامِ ثریا بتائے ثرا   احمدِ نوریؔ کے ہیں یہ مظہرِ تمام یہ ہیں نوریؔ میاں نوری ہر ہر ادا   نور کی مے پلاتے ہیں یہ روز و شب جس کو پینا ہو آئے ہے میخانہ وا   ہیں بہت علم والے بھی اور پیر بھی آنکھوں دیکھا نہ ان سا نہ کانوں سنا   ان کا سایہ سروں پر سلامت رہے منھ سڑاتے رہیں یونہی دشمن سدا   ان کے حاسد پہ وہ دیکھو بجلی گری وہ جلا دیکھ کر وہ جلا وہ جلا   وہ جلیں گے ہمیشہ جو تجھ سے جلیں مرکے بھی دل جلوں کو نہ چین آئے گا &nbs۔۔۔

مزید

جمال حضرت احمد رضا کا آئینہ تم ہو

تمہیں جس نے بھی دیکھا کہہ اٹھا احمد رضا تم ہو جمالِ حضرتِ احمد رضا کا آئینہ تم ہو   نہیں حامد رضا ہم میں مگر وجہِ شکیبائی خدا رکھے تمہیں زندہ مرے حامد نما تم ہو   تمہارے نام میں تم کو بزرگی کی سند حاصل رضا وجہِ بزرگی ہے رضائے مصطفی تم ہو   تمہارے نام میں یوں ہیں رضا و مصطفی دو جز رضا والے یقینا مصطفٰی کے مصطفی تم ہو   تمہاری رفعتوں کی ابتدا بھی پا نہیں سکتا کہ افتادہ زمیں ہوں میں بلندی کا سما تم ہو   حیات و موت وابستہ تمہارے دم سے ہیں دونوں ہماری زندگی ہو اور دشمن کی قضا تم ہو   یہ نوری چہرہ یہ نوری ادائیں سب یہ کہتے ہیں شبیہِ غوث ہو نوری میاں ہو اور رضا تم ہو   رضا جویانِ رب تھامے ہوئے ہیں اس لئے دامن رضا سے کام پڑتا ہے رضائے کبریا تم ہو   جناب مفتیٔ اعظم کے فیضانِ تجلی سے شبستانِ رضا میں خیر سے اخترؔ رضا تم ہو ٭…٭۔۔۔

مزید

اشکوں کا دریا

در منقبت حضور مفتیٔ اعظم علیہ الرحمہ -------------- چل دیئے تم آنکھ میں اشکوں کا دریا چھوڑ کر رنج فرقت کا ہر اک سینہ میں شعلہ چھوڑ کر   لذت مے لے گیا وہ جام و مینا چھوڑ کر میرا ساقی چل دیا خود مے کو تشنہ چھوڑ کر   ہر جگر میں درد اپنا میٹھا میٹھا چھوڑ کر چل دیئے وہ دل میں اپنا نقش والا چھوڑ کر   جامۂ مشکیں لئے عرشِ معلی چھوڑ کر فرش پر آئے فرشتے بزمِ بالا چھوڑ کر   عالمِ بالا میں ہر سو مرحبا کی گونج تھی چل دیئے جب تم زمانے بھر کو سونا چھوڑ کر   موتِ عالِم سے بندھی ہے موتِ عالَم بے گماں روحِ عالَم چل دیا عالَم کو مردہ چھوڑ کر   متقی بن کر دکھائے اس زمانے میں کوئی ایک میرے مفتیٔ اعظم کا تقویٰ چھوڑ کر   خواب میں آکر دکھائو ہم کو بھی اے جاں کبھی کون سی دنیا بسائی تم نے دنیا چھوڑ کر   ایک تم دنیا میں رہ کر تارک دنیا رہے رہ کے د۔۔۔

مزید

زینت سجادہ و بزم قضا

در منقبت حضور مفتیٔ اعظم علیہ الرحمہ ------------------ زینتِ سجادہ و بزم قضا ملتا نہیں لعلِ یکتائے شہ احمد رضا ملتا نہیں   وہ جو اپنے دور کا صدیق تھا ملتا نہیں محرمِ راز محمد مصطفی ملتا نہیں   اب چراغِ دل جلا کر ہوسکے تو ڈھونڈیئے پَر توِ غوث و رضا و مصطفیٰ ملتا نہیں   عالمِ سوزِدروں کس سے کہوں کس سے کہوں چارہ سازِ دردِ دل درد آشنا ملتا نہیں   عالموں کا معتبر وہ پیشوا ملتا نہیں جو مجسم علم تھا وہ کیا ہوا ملتا نہیں   زاہدوں کا وہ مسلم مقتدا ملتا نہیں جس پہ نازاں زہد تھا وہ پارسا ملتا نہیں   فردِ افرادِ زماں وہ شیخ اشیاخِ جہاں کاملانِ دہر کا وہ منتہا ملتا نہیں   استقامت کا وہ کوہِ محکم و بالا تریں جس کے جانے سے زمانہ ہل گیا ملتا نہیں   چار یاروں کی ادائیں جس میں تھیں جلوہ نما چار یاروں کا وہ روشن آئینہ ملتا نہیں   ای۔۔۔

مزید

مصطفیٰ حیدر حسن

در شان حضرت احسن العلماء مارہروی علیہ الرحمہ ------------------------ حق پسند و حق نوا و حق نما ملتا نہیں مصطفیٰ حیدر حسن کا آئینہ ملتا نہیں   خوبصورت ، خوب سیرت ، وہ امینِ مجتبیٰ اشرف و افضل ، نجیبِ زہرہ ملتا نہیں   خوش بیاں و خوشنوا و خوش ادا ملتا نہیں جو مجسم حسن تھا وہ کیا ہوا ملتا نہیں   خوش بیاں و خوشنوا و خوش ادا ملتا نہیں دل نوازی کرنے والا دلربا ملتا نہیں   پیکرِ صدق و صفا وہ شمعِ راہِ مصطفیٰ جو مجسم دین تھا وہ کیا ہوا ملتا نہیں   مردِ میدانِ رضا وہ حیدرِ دین خدا شیر سیرت شیر دل حیدر نما ملتا نہیں   حاجتیں کس کو پکاریں کس کی جانب رخ کریں حاجتیں مشکل میں ہیں مشکل کشا ملتا نہیں   وہ ہیں ان میں جو کہیں اجسامنا ارواحنا صورتِ روحِ رواں ہے برملا ملتا نہیں   ڈوب تو بہرِ فنا میں پھر بقا پائے گا تو جو یہ کہہ کردے گیا اپنا۔۔۔

مزید

نقیب اعلیٰ حضرت

اے نقیبِ اعلیٰ حضرت مظہر حیدر حسن اے بہارِ باغِ زہرا میرے برکاتی چمن   اے تماشاگاہِ عالم چہرۂ تابانِ تو تو کجا بہر تماشا می روی قربانِ تو   استقامت کا وہ کوہِ محکم و بالا حسن اشرف و افضل نجیب و عترتِ زہرا حسن   طورِ عرفان و علو و حمد و حسنیٰ و بہا زندہ باد اے پر تو موسیٰ و عکسِ مصطفیٰ   عالمِ سوزِدروں کس سے کہوں کس سے کہوں دل شدہ زارِ چناں و جاں شدہ زیرِ چنوں   تھا جو اپنے درد کی حکمی دوا ملتا نہیں چارہ سازِ دردِ دل دید آشنا ملتا نہیں   غِبْتَ فی مارھرہ مِصْبَاحَ الدّنٰی شمسَ الانام یا زُکانا مصطفانا بعدَک الدُّنیا ظَلَام   یا سَمائَ المجدِ دُمتم ما یُدانیکم سمٰی ذلَّ من عزَّ علیکم مَن لَّکم ذلّ السمٰی   جُوْدُکُم فَاقَ الجَوَادِی و بِکم جَادَت سمٰی خَیْرُکُمْ مَلَائَ البوادی صِیْتُکُم عمَّ الوَرٰی   اِنَّمَا المیّت۔۔۔

مزید

ہائے تڑپاتا ہے دل

منقبت شریف بموقع وصال حضرت والد ماجد مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ ---------------------------------- کس کے غم میں ہائے تڑپاتا ہے دل اور کچھ زیادہ امنڈ آتا ہے دل   دل ترا ہرگز بہلنے کا نہیں تو عبث بیمار بہلاتا ہے دل   ہائے دل کا آسرا ہی چل بسا ٹکڑے ٹکڑے اب ہوا جاتا ہے دل   کون جانے رازِ محبوب و محب کیوں لیا جاتا دیا جاتا ہے دل   جاں بحق تسلیم ہو جانا ترا یاد کر کے میرا بھر آتا ہے دل   اے تعالیٰ اللہ شانِ اولیاء ان کے استغنا پہ بل کھاتا ہے دل   میں بھی کچھ دن کا ہوں مہمانِ جہاں تابِ ہجراں اب نہیں لاتا ہے دل   کھا چکا ہے بارہا کتنے فریب پھر بھی دنیا پر مٹا جاتا ہے دل   تیرے پیچھے ہو چکا برباد میں رہنے دے اب اور کیا بھاتا ہے دل   چھوڑ دے ہاں اور غفلت چھوڑ دے کیوں سوئے دوزخ لئے جاتا ہے دل   اپنے مولیٰ کو منالے بدنص۔۔۔

مزید