/ Wednesday, 12 March,2025


صدر العلماء حضرت علامہ محمد تحسین رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ تعا لٰی علیہ   (17)





مدینہ سامنے ہے

مدینہ سامنے ہے بس ابھی پہنچا میں دم بھر میں تجسس کروٹیں کیوں لے رہا ہے قلبِ مضطر میں مجھے پہنچا گیا ذوقِ طلب دربارِ سرور ﷺ میں مسرت کلبلا اٹھی نصیبِ دیدۂ تر میں اُنھیں قسمت نے ان کی رفعتِ افلاک بخشی ہے گرے جو اشک آنکھوں سے مِری ہجرِ پیمبرﷺ میں گنہگاروں کے سر پر سایہ ہے جب اُن کی رحمت کا سوا نیزے پر آ کر شمس کیا کرلے گا محشر میں میرے بختِ سیاہ کو تو اگر چاہے بدل ڈالے تِری رحمت کو کافی دخل حاصل ہے مقدر میں مدد اے ہادیِ اُمّت، نوائے بے نوایاں! سن چراغِ بے کسی تھرا رہا ہے بادِ صر صر میں مِری ہر آرزو کا ماحصل، تحسینؔ! بس یہ ہے کسی صورت پہنچ جاؤں میں دربارِ پیمبرﷺ میں    ۔۔۔

مزید

مدح شہ والا

کرے مدحِ شہِ والاﷺ، کہاں انساں میں طاقت ہے مگر اُن کی ثنا خوانی، تقاضائے محبّت ہے نہاں جس دل میں سرکارِ دو عالمﷺ کی محبّت ہے وہ دل مومن کا دل ہے، چشمۂ نورِ ہدایت ہے میں دنیا کی خوشی ہرگز نہ لوں دے کر غمِ آقا ﷺ یہی غم تو ہے جس سے زندگی اپنی عبارت ہے فلک کے چاند تارے تم سے بہتر ہو نہیں سکتے رہِ طیبہ کے ذرّو! تم پہ آقا کی عنایت ہے اُسے کیا خوف خورشیدِ قیامت کی تمازت کا! جو خوش انجام زیرِ سایۂ دامانِ حضرتﷺ ہے مچل جائے گی رحمت دیکھ کر مجرم کو محشر میں وہ مجرم جس کے لب پر نامِ سرکارِ رسالتﷺہے بدل سکتے ہیں حالاتِ زمانہ آج بھی، تحسؔیں مگر اُنﷺ کی نگاہِ فیضِ ساماں کی ضرورت ہے۔۔۔

مزید

امام الانبیا تم ہو

امام الانبیا تم ہو، رسولِ مجتبیٰﷺ تم ہو جو سب کے پیشوا ہیں اُن کے آقا ﷺ ، پیشوا تم ہو حقیقت آپ کی سمجھیں تو کیا سمجھیں خِرد والے خدا والے یہ کہتے ہیں خدا جانے کہ کیا تم ہو تمہاری واقعی توصیف ہم سے غیر ممکن ہے کہ ہم جو کچھ کہیں اُس سے حقیقت میں سوا تم ہو خدا دیتا ہے تم تقسیم کرتے ہو زمانے کو میانِ خالق و مخلوق محکم واسطہ تم ہو مجھے پرواہ نہیں موجیں اُٹھیں طوفان آجائیں شکستہ ہے اگر کشتی تو غم کیا، نا خدا تم(ﷺ) ہو وہ کعبہ ہے جہاں سر جھک رہے ہیں ا ہلِ عالم کے مگر کعبہ بھی جس کے سامنے خم ہو گیا، تم ہو دلِ تحسینؔ سے غم کی گھٹائیں چھٹ گئیں آقا ﷺ سنا ہے جب سے اُس نے شا فعِ روزِ جزا تم ہو    ۔۔۔

مزید

جو ہر شے کی حقیقت ہے

جو ہر شے کی حقیقت ہے جو پنہاں ہے حقیقت میں اُسی کے حسن کا جلوہ ہے اُس شمعِ رسالتﷺ میں مِرے دل میں محبّت ہے مِرا دل ہے عبادت میں تصور میں مدینہ ہے میں ہوں ہر وقت جنّت میں نبی ﷺ کے اک اشارے سے قمر کیوں کر نہ ہو ٹکڑے کہ فطرت کار فرما ہے حجاباتِ نبوّت میں میں کہہ دوں گا قیامت میں، کہ روزِ امتحاں ہے وہ مِرا ایماں محبّت ہے مجھے جانچو محبت میں تِرا دل تو ہے جنّت میں، مِرے دل میں ہے وہ جنّت یہی تو فرق ہے زاہد، عبادت میں محبّت میں وہ مسلم جس کو تو نے خاص رحمت سے نوازا تھا وہ اب بے حد پریشاں ہے وہی ہے اب مصیبت میں پیمبرﷺ کی حقیقت کو کوئی تحسینؔ کیا سمجھے جو مقطع ہے تخیل کا وہ مطلع ہے نبوّت میں    ۔۔۔

مزید

امام المرسلیں آئے

رسولوں میں بایں صورت امام المرسلیںﷺ آئے کہ جیسے بزمِ انجم میں کوئی ماہِ مبیں آئے خبر کیا ہم کو زاہد راستے میں تجھ پہ کیا گذری مدینے سے جو ہم نکلے تو فردوسِ بریں آئے تِری ذاتِ مبارک وجہِ تخلیقِ دو عالم ہے بہ الفاظِ دگر تیرے لیے دنیا و دیں آئے سرِ محشر نگاہِ منتظر تو جن کی جویا ہے ابھی آئے، ابھی آئے، یہیں آئے، یہیں آئے جو مجنوں بن کے کھو جائے خیالِ دشتِ طیبہ میں اُسے آغوش میں لینے نہ کیوں خلدِ بریں آئے زمانہ مبتلا تھا وہم کی پوجا میں سرتا پا تِرےقدموں کی برکت ہے کہ آدابِ یقیں آئے۔۔۔

مزید

ذوق عمل

اگر ذوقِ عمل کو آج امیرِ کارواں کرلیں بدل کر پھر وہی پہلی سی تقدیرِ جہاں کرلیں وہ سنتے ہیں زمانہ سرگزشتِ غم سناتا ہے ذرا موقع جو مل جائے تو کچھ ہم بھی بیاں کرلیں اِدھر آؤ بہت ممکن نشانِ راہ مل جائے یہ ہیں نقشِ قدم بڑھ کر تلاشِ کارواں کرلیں لپٹ کر اُن کے دامن سے مچل کر اُن کے قدموں پر ہم اپنی پستیوں کو پھر حریفِ آسماں کرلیں دیارِ پاک کے کانٹوں سے کر کے دوستی ہمدم ریاضِ خلد کے پھولوں کو اپنا راز داں کرلیں نظر میں جذب ہیں رنگینیاں گلزارِ طیبہ کی جہاں چاہیں وہاں پیدا نیا باغِ جناں کر لیں وُفورِ شوق میں مَل کر جبیں کو آستانے سے نشانِ سجدۂ توحید کو جنّت نشاں کرلیں یہیں سے رحمتوں کا ساتھ ہوجائے اگر، تحسیؔں! کسیﷺ کے ذکر کو حرفِ اخیر داستاں کرلیں۔۔۔

مزید

وجہ تخلیق دو عالم

وجہِ تخلیقِ دو عالمﷺ، عالم آرا ہو گیا آج دنیا کو غمِ دنیا گوارا ہو گیا ڈوبنے والے نے اُن کا نامِ نامی جب لیا موج ساحل بن گئی طوفاں کنارا ہو گیا اللہ اللہ نشۂ صہبائے الفت کا سُرور دل کی آنکھیں کُھل گئیں اُن کا نظارا ہو گیا مرحبا اے وسعتِ ذ یلِ خطا پوشِ نبیﷺ عاصیوں کو منہ چھپانے کا سہارا ہو گیا شوق سے مجھ کو فرشتے لے چلیں سوئے جحیم میں نہ بولوں گا اگر اُن کو گوارا ہو گیا بس ابھی ہوتے ہیں طے یہ نیک و بد کے مرحلے آپﷺ یہ فرما تو دیں تحسیؔں ہمارا ہو گیا    ۔۔۔

مزید

ایسی بھی قیامت ہوتی ہے

ارمان نکلتے ہیں دل کے آقاﷺ کی زیارت ہوتی ہے کون اس کو قیامت کہتا ہے ایسی بھی قیامت ہوتی ہے طیبہ کا تصور کیا کہیے اک کیف کی حالت ہوتی ہے جس سمت نگاہیں اٹھتی ہیں بس سامنے جنّت ہوتی ہے احساس فزوں جب ہوتاہے اُس بابِ کرم سے دوری کا وہ قلب ہی جانے بے چارہ جو قلب کی حالت ہوتی ہے ہے ان کی رضا پر حق کی رضا اور ان کا کیا ہے حق کا کیا جو اُن کا ارادہ ہوتاہے وہ حق کی مشیّت ہوتی ہے اُس باعثِ خلقِ عالم کا جب نام لبوں پر آتا ہے راحت سے بدل کر رہتی ہے جو کوئی مصیبت ہوتی ہے طیبہ کی بہارِ دل کش کا جب تذکرہ کوئی کرتا ہے اُس وقت مریضِ الفت کی کچھ اور ہی حالت ہوتی ہے مختارِ جہاں ہیں وہﷺ، تحسیؔں! جو مانگو وہ اُن سے ملتاہے تقسیم اُنھیں کے درسے تو کونین کی دولت ہوتی ہے ۔۔۔

مزید

مئے حب نبی

مئے حُبِّ نبیﷺ سے جس کا دل سرشار ہو جائے وہ دانائے حقیقت، واقفِ اسرار ہو جائے زیارت روضۂ سرکارﷺ کی اک بار ہو جائے پھر اس کے بعد چاہے یہ نظر بے کار ہو جائے کرم اُنﷺ کا اگر اپنا شریکِ کار ہو جائے تلاطم خیز طوفانوں سے بیڑا پار ہو جائے اگر بے پردہ حُسنِ سیّدِ اَبرارﷺ ہو جائے زمیں سے آسماں تک عا لمِ اَنوار ہو جائے نظر آئے جسے حُسنِ شہہِ کونینﷺ میں خامی الٰہ العالمین ایسی نظر بے کار ہو جائے عطا فرما ئیے آنکھوں کو میری ایسی بینائی نظر جس سمت اُٹھے آپ کا دیدار ہو جائے اگر عکسِ رخِ سرکارﷺ کی ہو جلوہ آرائی مِرے دل کا سیہ خانہ تجلّی زار ہو جائے سکوں پرور ہیں لمحے ذکرِ آقائے دو عالمﷺ کے خدایا! زندگی وقفِ غمِ سرکارﷺ ہو جائے تمھارا نام لیوا ہے گدائے بے نوا تحسیؔں کرم کی اک نظر اِس پر بھی، اے سرکار ﷺ ! ہو جائے۔۔۔

مزید

وہ یوں تشریف لائے

وہ یوں تشریف لائے ہم گنہ گاروں کے جھرمٹ میں مسیحا جیسے آجاتا ہے بیماروں کے جھرمٹ میں مدد فرما ئیے، آقاﷺ! پریشاں حال امّت کی کہ شورِ ’’المدد‘‘ برپا ہے بے چاروں کے جھرمٹ میں لرز جاتی ہے ہر موجِ بلا سے آج وہ کشتی رہا کرتی تھی جو خنداں کبھی دھاروں کے جھرمٹ میں تلاشِ جذبۂ ایماں عبث ہے کینہ کاروں میں وفا کی جستجو اور ان جفا کاروں کے جھرمٹ میں حُسین ابنِ علی کی آج بھی ہم کو ضرورت ہے گھرا ہے آج بھی اسلام خوں خواروں کے جھرمٹ میں اُنھیں کا عکس ِ رخ جلوہ فگن ہے ورنہ، اے تحسیؔں! چمک ایسی کہاں سے آ گئی تاروں کے جھرمٹ میں  ۔۔۔

مزید

باغ ارم سے

  رکتا نہیں ہرگز وہ اِدھر باغِ ارم سے وابستہ ہو جو آپﷺ کے دامانِ کرم سے للہ! کرم کیجیے، سرکارِ مدینہﷺ! دل ڈوب رہا ہے مِرا فرقت کے اَلم سے آلامِ زمانہ کا بھلا اس میں گذر کیا آباد ہے جو دل شہہِ خوباںﷺ کے اَلم سے لب پر ہو دُرود اور ہوں گنبد پہ نگاہیں ایسے میں بُلاوا مِرا آجائے عدم سے منظور نہیں ہے کہ وہ پامالِ جبیں ہو یوں سجدہ کرایا نہ درِ پاک پہ ہم سے دیدار کی اُمّید نہ ہوتی جو سرِ حشر بیدار نہ ہوتے کبھی ہم خوابِ عدم سے بیٹھے ہیں یہاں چھوڑ کے نیر نگیِ عالم ہم کو نہ اٹھا حشر درِ شاہِ اممﷺ سے دیکھو میری آنکھوں سے درِ شاہِ امم ﷺ کو آتی ہے صدا یہ در و دیوارِ حرم سے یارب! دلِ تحسیؔں کی بھی بر آئے تمنّا آجائے بُلاوا درِ سرکارِ کرمﷺ سے      ۔۔۔

مزید

کیف ساماں ہے

  طرب انگیز ہے راحت فزا ہے کیف ساماں ہے یہ کوئی گلستاں ہے یا مدینے کا بیاباں ہے مِری جانب نگاہِ لطفِ سردارِ رسولاںﷺ ہے مقدر پر میں نازاں ہوں مقدر مجھ پہ نازاں ہے یہ مانا باغِ رضواں روح پرور کیف ساماں ہے مدینے کا گلستاں پھر مدینے کا گلستاں ہے مجھے دنیا میں کوئی غم نہ عقبیٰ میں پریشانی یہاں بھی اُن کا داماں ہے وہاں بھی اُن کا داماں ہے نبیﷺ کی یاد ہے کافی سہارا دونوں عالم میں یہاں وجہ سکونِ دل، وہاں بخشش کا ساماں ہے مجھے پرواہ نہیں موجیں اُٹھیں طوفان آ جائے نگہبانِ دو عالمﷺ میری کشتی کا نگہباں ہے نبیوں میں کچھ ایسی شان ہے سرکارِ والاﷺ کی کہ اگلے انبیا کو اُمّتی بننے کا ارماں ہے جو اُن کے ہیں انہیں نارِ جہنم چھو نہیں سکتی خدا کے خاص بندوں پر خدا کا خاص احساں ہے نہیں فعلِ عبث سرکارِ طیبہﷺ کی ثنا خوانی جو وہ تحسیؔن فرما دیں تو یہ بخشش کا ساماں ہے ۔۔۔

مزید