/ Friday, 14 March,2025


نبی کے نور سے پیر و مریدِ با صفا چمکے





نبی کے نور سے پیر و مریدِ با صفا چمکے
بریلی میں رضا چمکے، مدینے میں ضیا چمکے

ضیا کا فیض پہنچا ناگپور، ارضِ مدینہ سے
ضیا کے فیض سے عبد الحلیمِ با صفا چمکے

ضیاءُ الدین کے عرسِ مبارک کی تجلّی سے
خدا وندا قیامت تک عمریا کی فضا چمکے

ضیاءُ الدین کا بابِ کرم ہے کتنا نورانی
زبانِ التجا کھولوں تو حرفِ التجا چمکے

شریعت اور طریقت کی مُقدّس رہ گزاروں میں
جب ان کا نقشِ پا چمکا تو لاکھوں رہ نما چمکے

مدینے کے قطب کی ذات اسمِ با مسمّٰی ہے
ضیاءُ الدین بن کر دین و ملّت کی ضیا چمکے

یہ بس دن بھر چمکتا ہے ہمیشہ تم چمکتے ہو
تمھارے سامنے سورج اگر چمکے تو کیا چکے

چمک اٹھا مُقدّر پیر زادہ فضلِ رحمٰں کا
ضیا کے جانشیں بن کر مثالِ آئینہ چمکے

یہاں اعجاز ہر دم نور کی خیرات بٹتی ہے
مدینے کی گلی میں جو بھی آئے وہ گدا چمکے