ہے جو محبوب سجا تیری جبیں پر سہرا
باعث نگہت و عشرت ہے منور سہرا
رشک سے کیوں نہ تکیں یہ مہ و اختر سہرا
سب کا محبوب نظر ہے یہ مطہر سہرا
آرزو بہنوں کی ارمان برادر سہرا
راحت جان و سکونِ دلِ مادر سہرا
چومتا ہے ترے رخسار و جبیں کو پیہم
در حقیقت ہے مقدر کا سکندر کا سہرا
فیض مرشد سے یہ لایا ہے بہاروں کا پیام
ہو مبارک تجھے محبوب معطر سہرا
انکساری سے جو جھکتا ہے کہیں پر نوشہ
چوم لیتا ہے قدم بڑھ کے وہیں پر سہرا
آج تکمیل تمنا ہے مبارک ہو تمہیں
دوست کہتے ہیں یہی رخ سے ہٹا کر سہرا
جس طرح آج ہے مہکا یا مشام جاں کو
زیست مہکاتا رہے یوں ہی برابر سہرا
راحت قلب و نظر آج ہوا ہے جیسے
پیش کرتا رہے تا عمر یہ منظر سہرا
ہم کو دعوائے سخن سازی نہیں ہے حاؔفظ
رنگ غالب میں مگر لائے ہیں لکھ کر سہرا
(۱۹۷۱ء)