ہر نفس کو ہم پیغامِ آخری سمجھا کئے
زندگی کو مایۂ بے مائگی سمجھا کئے
آسرا جینے کا تم کو جیتے جی سمجھا کئے
جان دینے کو ہمیشہ زندگی سمجھا کئے
دل کی بربادی کو ہم دل کی خوشی سمجھا کئے
عمر بھر بس موت ہی کو زندگی سمجھا کئے
الوداع اے عشرتِ فانی کہ آنکھیں کھل گئیں
ہم فریب ِ زندگی کو زندگی سمجھا کئے
آج عرضِ حال پر میرے توجہ خاص تھی
گفتنی سنتے رہے ناگفتنی سمجھا کئے
بےخودی کہتے ہیں جس کو موت ہے احساس کی
موت کے احساس کو ہم بے خودی سمجھا کئے
عشق میں کھوئے تو پہچانی حقیقت حسن کی
اور دیوانے اسے دیوانگی سمجھا کئے
کیا بتاؤں کیسی گزری بزم حسنِ یار میں
میری سب سنتے رہے اور یار کی سمجھا کئے
نفس کی ناکامیوں میں کامرانی ہے خلیؔل
زندگی کا راز اہل دل یہی سمجھا کئے