ہر سمت تجھ میں برکت اقطاب کی زمیں ہے
مارہرہ تیری قسمت اقطاب کی زمیں ہے
سب کیلئے ہی راحت اقطاب کی زمیں ہے
دنیا میں گویا جنت اقطاب کی زمیں ہے
ہر ذرہ ہے منور انوارِ قادری سے
یعنی حریفِ ظلمت اقطاب کی زمیں ہے
حیرت سے دیکھتا ہے جھک کر فلک بھی تجھ کو
حاصل وہ تجھ کو رفعت اقطاب کی زمیں ہے
ہیں شمس معرفت کے کُل اولیاء یہاں کے
ان سے ہی تیری زینت اقطاب کی زمیں ہے
پاتے ہیں فیض ہر دم، اس سرزمیں سے ہم سب
کیونکر نہ ہو عقیدت اقطاب کی زمیں ہے
فیضِ حسؔن یہاں ہے فیضِ حسیؔن بھی ہے
مولا علؔی کی جلوت اقطاب کی زمیں ہے
ہر سمت ہے بہارِ سرکارِ غوث اعظم
ان کی بڑی عنایت اقطاب کی زمیں ہے
برکاتیو یہ سن لو پندرہ قطب یہاں ہیں
اور ہر قُطُبْ کی جنت اقطاب کی زمیں ہے
یہ ہیں جلیؔل امت، ’’در گہہ بڑی‘‘ ہے اِن کی
آتی ہے یاں پہ خلقت اقطاب کی زمیں ہے
شیخ جلاؔل بھی ہیں، شیخ اِبرَاہِیْمؔ بھی
اعلیٰ ہے ان کی سیرت، اقطاب کی زمیں ہے
اک چھت کے نیچے یکجا، ہیں قطبِ وقت ساتوں
پائے نہ کیوں یہ رفعت اقطاب کی زمیں ہے
ساتوں قطب کے مرکز بیشک ہیں شاہ برکؔت
ان سے ہی تجھ میں برکت اقطاب کی زمیں ہے
قطبِ زمان ثانی آل محؔمدیﷺ ہیں
کیا خوب ان کی عظمت اقطاب کی زمیں ہے
حمزؔہ کی ذات سے ہیں روشن یہ ماہ پارے
کیسی عیاں ہے لمعت اقطاب کی زمیں ہے
اچھؔے میاں سے اچھی، ستھرےؔ میاں سے ستھری
بنتی ہے یاں پہ سیرت اقطاب کی زمیں ہے
آلِؔ رسولﷺ کا ہے یہ فیض جس سے ہر دم
گہوارۂ مسرت اقطاب کی زمیں ہے
کامل کیا رضاؔ کو پل میں گلے لگا کر
ایسی مثالِ نُدرت اقطاب کی زمیں ہے
نوریؔ میاں کے قرباں فیض و کرم سے ان کے
بستانِ علم و حکمت اقطاب کی زمیں ہے
شاہ جیؔ میاں کا قبّہ جو آٹھویں قطب ہیں
گویا نشانِ رفعت اقطاب کی زمیں ہے
ببّا حضوؔر بھی ہیں اقطاب کے جہاں میں
سید میاںؔ کی خلوت اقطاب کی زمیں ہے
اور یہ حسنؔ میاں ہیں جو گیارہویں سے چمکے
کیسی حسیں نُضارت اقطاب کی زمیں ہے
میم محمدی ہے مارہرہ تیری قسمت
گنبد نشانِ عظمت اقطاب کی زمیں ہے
میم مدینہ سے ہے مارہرہ ایسا روشن
گم ہے نشانِ ظلمت اقطاب کی زمیں ہے
دیتے ہیں درسِ وحدت یاں پر امینؔ ملت
بے شک امین وحدت اقطاب کی زمیں ہے
ہاں اک قطب یہاں کے مفتی خلیؔل بھی ہیں
اور ان کی وجہ شہرت اقطاب کی زمیں ہے
حافظؔ زمانہ جس سے برکات پارہا ہے
وہ خانقاہِ برکت اقطاب کی زمیں ہے
(۴ صفر الخیر ۱۴۳۷ھ/ ۱۷ نومبر ۲۰۱۵ء)