حسیں، جمیل و شرمگیں جبین ِ لالہ زار ہے
فضا فضا ادا ادا طلسمِ زر نگار ہے
طلسمِ زر نگار پر جمی ہوئی ہے ہر نظر
زہے جمالِ معتبر شباب ہے، نکھار ہے
جمال ہے فسوں ادا شباب، سحرِ بر ملا
نفس نفس ہے دل فدا نظر نظر نثار ہے
نظر نظر کی جستجو قدم قدم پہ سُر خرو
نشاطِ کیفِ رنگ و بُو، سکون ہے قرار ہے
سکونِ دل قرارِ جاں میں رنگ ہیں عجب عجب
کہ دیکھ دیکھ کر جنہیں سحر بھی شرمسار ہے
روش روش پہ صف بہ صف کِھلے ہیں پھول ہر طرف
شجر شجر ہے زر بکف کلی کلی بہار ہے
یہ چاندنی وہ نسترن یہ روشنی وہ بانکپن
ہر ایک نور پیرہن غریب دل شکار ہے
نہ ہوش ہے اکاس میں نہ سرو ہیں حواس میں
ہرے ہرے لباس میں جہانِ سبزہ زار ہے
نہال صورتِ عروس ہیں شریکِ سر خوشی
مزے اڑاؤں کیوں نہ می رواں ہر آبشار ہے
یہ قمریوں کے دلولے یہ چہچہے یہ قہقہے
یہ خوش سماں یہ زمزمے نظامِ کرد گار ہے
جگہ جگہ خود آپ ہی رواں ہے جُوئے شِیر بھی
نہ کوہ کَن یہاں کوئی، نہ کوئی کوہسار ہے
فنا فنا ملال و غم کدورتوں کے سر قلم
نہ گرد شاملِ قدم نہ راہ پر غبار ہے
زہے مذاقِ سوزِ دل زہے کمالِ آب و گل
زہے مزاجِ مشتعل شرر فشاں چنار ہے
چنار میں یہ سوزِ تن یہ آتش آفریں لگن
شعاع مہر خندہ زن قطار در قطار ہے
بڑھی ہوئی ہیں فرحتیں مِٹی ہوئی ہیں کلفتیں
یہ رونقیں یہ نُزہستیں سحاب مشک بار ہے
خزاں پہ اوس پڑگیٔ، لُٹی مِٹی، اُجڑ گئی
بہار دستِ قدرتِ خدا کا شاہکار ہے
ہے بُوئے گل طرب فزا ہے جوشِ مُل کی انتہا
بیا بیا کہ ساقیا ترا ہی انتظار ہے
ترنگ ہے اُمنگ میں اُمنگ ہے ترنگ میں
صدا رَباب و چنگ میں سکوں سے ہمکنار ہے
یہ مطربانِ خوش گُلو یہ دلنواز آبِ جو
بہ قدرِ شوق و آرزو نوا بلب ہزار ہے
تہِ فلک زمین پرسجی ہے بزم طرفہ تر
عیاں نہاں اِدھر اُدھر تمام نور و نار ہے
اِس انجمن کی روح تُو تجھی سے اِس کی آبرو
ترے ہی دم سے چار سُو بہار ہے وقار ہے
چراغ کی ضیاتُہی ضیا کی ہر ادا تُہی
دلوں کا مدّعا تُہی، تجھے ہر اختیار ہے
تجھے ہیں اختیار سب دلوں میں ہے ترے طلب
زمانے بھر میں روز و شب تُہی تو جلوہ کار ہے
شعور تُو شباب تُو سُرور تُو شراب تُو
اگر ہو بے نقاب تُو برق ہے شرار ہے
یہ برق یہ شرار کیا عطا تری، کرم ترا
فرازِ طور ریزہ ریزہ ہو کے پُر وقار ہے
قدح میں آب کچھ نہیں سبو کا خواب کچھ نہیں
شرابِ ناب کچھ نہیں کسے یہ ساز گار ہے
سوالِ مے غلط غلط خیالِ مے غلط غلط
جمالِ مے غلط غلط جمالِ مے، خمار ہے
نہ کم زیادہ چاہیے نہ سادہ سادہ چاہیے
وہ روحِ بادہ چاہیے جو روحِ حُسنِ یار ہے
نہیں نہیں کا طول ضد، نہیں کی ہے فضول ضد
نہیں کی بے حصول ضد، نہیں کا لفظ خار ہے
نظر ملا، ملا نظر کہ روح کو سکوں ملے
مجھے پلا، مجھے پلا کہ دل کو اضطرار ہے
بسا بھی دے مکانِ دل عطا ہو لطف ِ مستقل
بہت زیادہ مضمحل مشامِ جانِ زار ہے
نظر ملے نظر سے جب تو میں کہوں بصد ادب
یہی ہیں میرے روزو و شب یہی مری پکار ہے
دل و نظر یہ چھائے جا، لنڈھائے ،جا لنڈھائے جا
پلائے جا، پلائے جا، بہار ہے، بہار ہے
ورق ورق ورق ورق یہی ہے اب مرا سبق
نہ یہ الم نہ وہ قلق نہ کوئی خلفشار ہے
مدام یوں پیوں گا میں یہ چاکِ دل سیوں گامیں
پیوں گا میں جیوں گا میں یہی مرا شعار ہے
سَحر کاسِحر بھی مجھے اسیرِ دام کیوں کرے
غرض نہیں فرار سے کہاں رہِ فرار ہے
گرفتِ فطرتِ حسیں کوئی مذاق تو نہیں
عجب جنوں ہے دلنشیں عجیب دُھن سوار ہے
قدم اٹھاؤں کس طرح نکل کے جاؤں کس طرح
رہائی پاؤں کس طرح کہ عشق اک حصار ہے
یہ مہ وشی، یہ چاندنی، یہ سادگی، یہ دلبری
یہ ناز کی، یہ تازگی، نشاطِ روزگار ہے
یہ شبنم اور تابشیں یہ تابشوں سے رونقیں
برس رہی ہیں نکہتیں پھوار ہی پھوار ہے
سرورِ جاں ہے بُوئے گل نشاط ِ دل ہے رنگ ِ مُل
سرورِ کُل نشاطِ کُل نفس نفس کا تار ہے
نفس نفس کے تار کی ہے دم بہ دم صدا یہی
گواہ ہے کلی کلی بہار پائدار ہے
اِدھر اُدھر یہاں وہاں نئے ہیں ڈھب نیا سماں
کمال ِ فنِّ باٖغباں نظامِ شاخسار ہے
خزاں کی فتنہ جُو ہوا چلے توباغ میں ذرا
ہر ایک موجِ فصل گُل، ادائے ذُوالفقار ہے
یہ اہتمام ِ انجمن، یہ انصرام ِ انجمن
یہ صبح و شامِ انجمن، خوشی کا اشتہار ہے
نمائشوں کی دل کشی نہ کائنات گن سکی
گنے گا کیا بھلا کوئی عبث غمِ شمار ہے
زمانہ دیکھ دیکھ کر ہُوا ہے محوِ بام و در
ہر ایک سمت رونقیں ہیں، رنگ ہے، نکھار ہے
ہے میرے ذوق و شوق کی تمام زندگی یہی
مرے لیے یہ زندگی حسین و خوشگوار ہے
یہ جتنے رخ ہیں جلوہ گر دوام اِنہیں ہے سر بہ سر
کسی کو ہو نہ ہو مگر، مجھے تو اعتبار ہے
گُماں کے غم سہے کوئی شکوک میں رہے کوئی
نؔصیر کچھ کہے کوئی بہار پھر بہار ہے
(عرشِ ناز)