/ Friday, 14 March,2025


حسرتی اے مژدۂ آمد اسی منزل میں ہے





حسرتی اے مژدۂ آمد اسی منزل میں ہے
پہلے مرنے کی تھی اب جینے کی حسرت دل میں ہے
جان دینے کی تمنا ہر رگ بسمل میں ہے
کیا کرے مجبور ہے خنجر ید قاتل میں ہے
پھر بھلا کس طرح ہواندازۂ دامان شوق
اک اک عالم جس کے ہر ہر گوشہ ہائے دل میں ہے
میرے اشک آتشیں کرنیں اٹھا کر لے گئیں
غایت سوز اس لئے خورشید کی محفل میں ہے
ہائے قسمت میری خامی مجھ سے بہتر ہوگئی
لوگ کہتے ہیں کہ اس کا ذکر اس محفل میں ہے
حسن کی حلقہ بگوشی بھی ہے کیا اشک آفریں
رنگ کالا ہے مگر کیا بات انکے تل میں
کہہ رہی ہے دیکھ سوئے ماہ پرواز چکور
حاصل جان و صل کی اس سعی لاحاصل میں ہے
ہر رگ و پے فیضیاب سوز اسماعیل ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ڈوبتا دیکھا مجھے اور ہاتھ ملتا رہ گیا
کس قدر بے چارگی آزادئ ساحل میں ہے
ناصحا مت چھیڑ اخؔتر کو بس اپنی راہ لے
نشۂ عشق و محبت اسکے آب و گل میں ہے