حسرتی اے مژدۂ آمد اسی منزل میں ہے
پہلے مرنے کی تھی اب جینے کی حسرت دل میں ہے
جان دینے کی تمنا ہر رگ بسمل میں ہے
کیا کرے مجبور ہے خنجر ید قاتل میں ہے
پھر بھلا کس طرح ہواندازۂ دامان شوق
اک اک عالم جس کے ہر ہر گوشہ ہائے دل میں ہے
میرے اشک آتشیں کرنیں اٹھا کر لے گئیں
غایت سوز اس لئے خورشید کی محفل میں ہے
ہائے قسمت میری خامی مجھ سے بہتر ہوگئی
لوگ کہتے ہیں کہ اس کا ذکر اس محفل میں ہے
حسن کی حلقہ بگوشی بھی ہے کیا اشک آفریں
رنگ کالا ہے مگر کیا بات انکے تل میں
کہہ رہی ہے دیکھ سوئے ماہ پرواز چکور
حاصل جان و صل کی اس سعی لاحاصل میں ہے
ہر رگ و پے فیضیاب سوز اسماعیل ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ڈوبتا دیکھا مجھے اور ہاتھ ملتا رہ گیا
کس قدر بے چارگی آزادئ ساحل میں ہے
ناصحا مت چھیڑ اخؔتر کو بس اپنی راہ لے
نشۂ عشق و محبت اسکے آب و گل میں ہے