ہے تو بس نامِ محمد ہے سہارا اپنا
ان کے صدقے سے ہی ملتا ہے گزار اپنا
ہم کو طوفان کی موجوں کا کوئی خوف نہیں
ہم اسی نام سے پالیں گے کنارا اپنا
اٹھی جدھر نگاہ رسالت مآب کی
ذرّوں کو آب و تاب ملی آفتاب کی
اجمل ترین حُسن ہے اکمل ترین وصف
ہر بات لا جواب ہے اُس لا جواب کی
ہر ہر ادا ہے سورۂ ِ قرآن لئے ہوئے
کیا بات ہے جناب رسالت مآب کی
دل بھی یاد تو میں نے خدا کے حبیب کو
تقدیر جاگ اٹھی ہے مرے انتخاب کی
ان کے کرم نے دید رُخ ِ بے نقاب کی
ورنہ کسے ہے تاب رخِ بے نقاب کی
مجھ سے گنہگار کو دامن میں لے لیا
ہو خیر آپ کے کرم بے حساب کی
اک دن ضرور آئیں گے سرکار خواب میں
حالت یہ کہہ رہی ہے مرے اضطراب کی
مستی درودِ پاک کی جن کو نصیب سے
حاجت نہیں ہے ان کو کسی بھی شراب کی
خاؔلدغمِ حیات سے کرتی ہے بے نیاز
نسبت اُس آستانہءِ عالی جناب کی