ہچکیوں کا شمار ہے یعنی
آپ کا انتظار ہے یعنی
فتنہ برپا ہے آج عالم میں
دل بہت بے قرار ہے یعنی
آنکھ اٹھتی نہیں ہے محشر میں
فتنہ گر شرمسار ہے یعنی
کس قدر سوگوار ہے دنیا
زیست بھی ایک بار ہے یعنی
مستئ چشم یار ارے توبہ
شام ہی سے خمار ہے یعنی
وہ بلانے سے بھی نہیں آتے
حسن بااختیار ہے یعنی
دہ پَہرَ ڈھل گئے مسرت کے
ختم صبحِ بہار ہے یعنی
دل دھڑکتا ہے بَلّیوں میرا
ان کے دل کی پکار ہے یعنی
سارے جلوے ہیں حسن کامل کے
عشق بے اختیار ہے یعنی
کس نے دل کا قرار لوٹ لیا
کیوں سکوں ناگوار ہے یعنی
پوچھنا کیا خلیؔل مضطر کا
ایک تازہ شکار ہے یعنی