خیر و شر
ہم سمجتے تھے شب تاریک ٹلنے کی نہیں
اپنی قسمت میں نہیں ہے صبح نصرت کی ضیا
ایسی مایوسی میں ایسی بے بسی کے وقت میں
رحمتِ حق دے اٹھی اِنّافتحنا کی صدا
تم نے سمجھا تھا کہ پھونکوں سے مٹاتے جائیں گے
ان حسیں پھولوں کی جیتی جاگتی تصویر کو
اے حریفان گل ولالہ تمہیں کچھ علم ہے
عین فطرت توڑنا ہے ظلم کی زنجیر کو
آتشِ فرعونیت جب بھی کبھی روشن ہوئی
ابر رحمت بن کے چھائی موسویت گی گھٹا
ننھے طائر بھی اٹھے ہیں لے کے جوش انتقام
ابرہہ کے ظلم کے جب ہوگئی ہے انتہا