حضور ساقئ کوثر مرا سوال بھی تھا
ملا جو جام چھلکتا ‘ مجھے حلال بھی تھا
کہیں جلال کے پردے میں تھا جمال دوست
کہیں جمال کی آغوش میں جلال بھی تھا
مری عطا سے جو بڑھ کر ملا وہ ان کا کرم
یہ میری حسن طلب کا مگر کمال بھی تھا
مری نگاہ میں وَالَّیْلْ کا رہا مضموں
مرے نصیب میں سودائے زلف و خال بھی تھا
یہ بے خودی تھی ‘ جنوں تھا ‘ کہ خویش آگاہی
کہ ہوش گم تھے مگر یار کا خیال بھی تھا
بہار جھانکتی آئی خزاں کے پردے سے
فراق تلخ سہی ‘ مورث وصال بھی تھا
تباہ کرکے رہیں تیری شوخیاں تجھ کو
خودی میں ڈوبنے والے تو بدمآل بھی تھا
تلاش کرہی لیا رحمتوں نے حاؔفظ کو
شکستہ دل بھی ‘ پریشان بھی ‘ خستہ حال بھی تھا
(نومبر ۱۹۸۱ء)