علم کا فضل کا تھا وہ کوہ گراں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
اہلسنت کا تھا ایک روح رواں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
صحبت شیر سنت میں ہوکر مگن ترک تونے کیا بیچنے میں وطن
قابل دید تھیں تیری سر گرمیاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
لمحہ لمحہ تیری زندگی دیکھ لی بس نظر آئی تبلیغِ عشق نبی
خود بھی مٹ کر اسی پر ہوئے جاوداں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
حاسدوں سے کہو کہ حسد چھوڑ دیں ورنہ آرام کی وہ طلب چھوڑ دیں
تجھ سے ہو کرخفا بس کرینگے فغاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
میرے نانا بھی ہیں میرے رہبر بھی ہیں اور علم و حکم کے سمندر بھی ہیں
آہ ایسا ملیگا کہاں پاسباں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
داغ عشق نبی پر وہ پہرہ دیا کفر پر شرک پر بن کے بجلی گرا
دشمن دین پرکوہ آتش فشاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
مسند علم پر تو غزالی رہا ممبروں پر دیکھا مثل شیرِرضا
خود میں تو تھا مکمل ہی اک کارواں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
اعلیٰ حضرت کے فتوے پہ عامل رہاہوگی بیرون مسجد اذن ہی ادا
حفظِ سنت میں بھی تیری قربانیاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
یہ جو پٹیالہ لندن ہے اور جاورہ تیرے جلؤں سے شاداب سیرا ہوا
ایک بادل تھا برسا کہاں اور کہاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ
تیری فاراں آواز دل نے کہا خوب مدحت کری مرحبا مرحبا
ہاں مگر فکرِ من تیرا رتبہ کہاں آبروئے سنن مفتئ جاورہ