یہ روایت ابو ہُریرہ کی
اس صحابی سے یوں ہُوئی مروی
کہ بَہ تحقیق حضرتِ احمدﷺ
اُن پہ نازل ہو رحمتِ ایزد
لبِ اعجاز کو ہلاتے تھے
ہم کو اِس طرح سے سناتے تھے
کہ مِرے بعد ہوں گے کچھ اَشخاص
روشِ دوستی میں با اخلاص
ہوں گے کامل مِری محبّت میں
سخت تر ہوں گے راہِ اُلفت میں
میرے دیدار کے فدا ہوں گے
طالبِ روئے مصطفیٰ ہوں گے
ہوگی اِس بات کی اُنھیں چاہت
کہ مجھے دیکھتے کسی صورت
زن و فرزند اور مال و تبار
کرتے سب کچھ اس آرزو میں نثار
کچھ نہ پروائے سیم و زر کرتے
میری صورت ہی پر نظر کرتے
یاں تلک اس حدیث کا مضموں
ہو چکا سلکِ نظم میں موزوں
اب یہ بہتر ہے کؔافیِ دل گیر
غزلِ تازہ کیجیے تحریر
جان و(؟) دل اس شہِ لولاک پہ قرباں کیجے
اُن کے قدموں پہ تَصدّق یہ دل و جاں کیجے
۔۔۔(؟) کیا چیز ہے اک جاں کی حقیقت کیا ہے
۔۔۔(؟) جان فرش رہ مقدمِ جاناں کیجیے
بچ(؟) گئے جس کی شفاعت کے سبب دوزخ سے
ایسے محسن کا ادا شکر کس عنواں کیجے
۔۔۔(؟) جب دولتِ دیدار ہی ہم کو نہ ملے
کیوں(؟) نہ اِس عمر کو صرفِ غَمِ ہجراں کیجے
سامنے آپ کے اے مہرِ سپہرِ رحمت
عرض کیا کیا المِ شامِ غریباں کیجے
شدّتِ مرض و محن، جرم و گنہ کی کثرت
تا غم و درد کو اظہار نمایاں کیجے
اب تو اے رحمتِ عالَم لب اعجاز کے ساتھ
کؔافیِ خستۂ دل ریش کا درماں کیجے