جب عشق کا سودا مول لیا احباب سے رشتہ ٹوٹ گیا
وہ دل کی تمنا خاک ہوئی، وہ دامن عشرت ٹوٹ گیا
دل بھی تو خلیؔل خستہ کا شیشے سے زیادہ نازک تھا
صدمے جو پڑے تو مَول گیا، نظروں سے گرا تو پھوٹ گیا
انقلاب دہر کی تصویر کیا؟
خواب کیا ہے؟ خواب کی تعبیر کیا؟
زندگی شوریدگی کا نام ہے
پھر مالِ شورِ دار و گیر کیا؟
دو چار خطاؤں کو خاطر میں نہ لانا تھا
اور میری وفاؤں کو دل سے نہ بھلانا تھا
تم اپنی نگاہوں سے بجلی ہی گرادیتے
مجھکو تو نہ نظروں سے اس طرح گرانا تھا
بیتاب ہے دل بے چین جگر اور منہ کو کلیجا آتا ہے
ماحول پہ وحشت طاری ہے جی آج مرا گھبراتا ہے
کیا یہ بھی کوئی بیماری ہے یا عشق اسی کو کہتے ہیں
تسکین جو کوئی دیتا ہے دل اور بھی بیٹھا جاتا ہے
ہر لمحہ سکونِ دل ہو جہاں اک ایسی منزل ڈھونڈینگے
طوفاں نہ جہاں پر کوئی اٹھے ہم ایسا ساحل ڈھونڈینگے
برتا ہے خلیؔل اپنوں کو بہت اب غیروں کو اپنائینگے
جس بزم میں سب بیگانے ہوں ہم ایسی محفل ڈھونڈینگے
(۱۵ محرم الحرام ۱۴۰۵ھ مطابق ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء بروز پنجشنبہ)



