جب ان کا تصور آتا ہے اشعار حسیں ہوجاتے ہیں
ہر بزم حسیں ہوجاتی ہے دربار حسیں ہو جاتے ہیں
قربان نزاکت پر ان کی ‘ گلزارِ جِناں کے گل بوٹے
طیبہ کے سفر میں اے زائر سب خار حسیں ہو جاتے ہیں
جب جام الفت و عشق نبی ‘ پیتے ہیں نبی کے مستانے
عرفان کی مستی میں ڈھل کرمہ خوار حسیں ہوجاتے ہیں
انوارِ غبارِ طیبہ نے یوں شمس و قمر کو چمکایا
جس طرح کسی کے غازے سے رخسار حسیں ہو جاتے ہیں
جب گنبد خضرا کا منظر آنکھوں میں ہماری ہوتا ہے
اک بزم سخن سج جاتی ہے افکار حسیں ہوجاتے ہیں
ہر دور میں تازہ دیکھا ہے اعجاز ‘ نبی کی سیرت کا
کردار حسیں ہوجاتا تھے کردار حسیں ہو جاتا ہیں
قربان میں ان کے ‘ صدقہ ہے آقا کے تصرف کا حاؔفظ
ہو حمدِ خدا ‘ یا نعتِ نبی ‘ اذکار حسیں ہوجاتے ہیں
(مئی ۱۹۷۹ء)