جمال ِ ذات کا آئینہ تیری صورتِ ہے
مرے لئے ترا دیدار ہی عبادت ہے
مرے لبوں پہ شب و روز ان کی مدحت ہے
خدا کی اس سے بڑی کون سی عنایت ہے
تمہارے اِسم گرامی پہ بے شمار سلام
یہ نام وہ ہے جو ہر کیف کی ضمانت ہے
مری خطا پہ نہ جاؤ نصیب کو دیکھو
میں ان کا ہوں کہ جنہیں در گزر کی عادت ہے
جلا سکے گی نہ دوزخ کی آگ بھی اس کو
وہ جس کی زیست کا سرمایہ ان کی الفت ہے
خدا کا تم سا کوئی دوسرا حبیب نہیں
جو بات منہ سے نکلتی ہے وہ مشیت ہے
جہاں میں سب کرم ِ مصطفیٰ سے زندہ ہیں
چھپائے چھپ نہیں سکتی یہ وہ حقیقت ہے
غنی بناتی ہے بھیک ان کے آستانے کی
بُہت حسین فقیرو تمہاری قسمت ہے
کسی کے در پہ میں پھیلاؤں ہاتھ کیوں خاؔلد
حضورﷺ ہیں تو مجھے کس کی پھر ضرورت ہے