جبریلِ اَمیں شانِ بشر
دیکھ رہے ہیں
سِدرہ پہ کھڑے گردِ سفر دیکھ رہے ہیں
یہ اُن کی محبّت کا اثر دیکھ رہے ہیں
بس اُن کے نظارے ہیں جدھر دیکھ رہے ہیں
صِدّیق کی اُلفت کا ثمر دیکھ رہے ہیں
بوجہل کو ہم خاک بَہ سر دیکھ رہے ہیں
سرکارِ دو عالَم کی غلامی میں جو آئے
سرتاجیِ کونین
عمر دیکھ رہے ہیں
فیضانِ محبّت ہے کہ عُشّاق یہاں ہیں
اللہ
کے محبوب کا گھر دیکھ رہے ہیں
اللہ کے محبوب کی تعظیم کی خاطر
جھکتے
ہوئے سرداروں کے سر دیکھ رہے ہیں
انسان تو کیا چیز ہے ہم پائے نبی پر
رکھتے
ہوئے جبریل کو سر دیکھ رہے ہیں
اللہ کے بندوں نے اُنھیں نور بھی
دیکھا
اور دیو کے بندے ہیں بشر دیکھ رہے ہیں
جھولی کو پسارے ہوئے محتاج و غنی
ہیں
اور رحمتِ کونین کا در دیکھ رہے ہیں
اللہ مِری چشمِ تمنّا
کا بھرم رکھ
وہ دیکھ کہ سرکار اِدھر دیکھ رہے ہیں
عالَم میں نِکو نام ہوں فیضانِ رضا سے
گمنام مجھے تنگ نظر دیکھ رہے ہیں
یہ مُرشِدِ کامل کا ہی فیضان ہے ریحؔاں
کہ اہلِ ہنر
مجھ میں ہنر دیکھ رہے ہیں
ریحؔاں سا کوئی پھول گلستاں میں
نہیں ہے
ہر رخ سے چمن اہلِ نظر دیکھ رہے ہیں