معروضہ ببارگاہِ مرشدبرحق ناصرِ ملّت مولانا محمد نعیم الدین صاحب قبلہ مرا د آبادی
جس نے دکھایا طیبہ وہ قبلہ تمہی تو ہو
جس میں نبی کو دیکھا وہ شیشہ تمہی تو ہو
اہلِ نظر کے تم ہی تو ہو مطمح نظر
اور اہلِ دل کے دل کی تمنا تم ہی تو ہو
تم وارثِ علومِ حبیب الٰہ ہو
اور ناصرِ شریعت بیضا تم ہی تو ہو
اس گلستانِ دین کی تم ہی بہار ہو
اور بزم سنت کا اجالا تم ہی تو ہو
دین کے نعیم، مظہر شانِ معین ہو
کمزور و بے نوا کا سہارا تم ہی تو ہو
سب اہلِ عقل صدر افاضل نہ کیوں کہیں
وہ سب ہیں خاتم ان کے نگینہ تم ہی تو ہو
ہے نجدیوں کے قلب میں آرا تمہاری ذات
اور سنیوں کی آنکھ کا تارا تم ہی تو ہو
تقریر جس کی قہر الٰہی عدو پہ ہے
اور اہلِ دین پہ رحمتِ مولا تم ہی تو ہو
جس کا قلم کہ نیزۂ باطل شکن بنا
اور دینِ مصطفیٰ ﷺ کا ہے پایہ تم ہی تو ہو
ہم سب تھے جہل کی شبِ تاریک میں پھنسے
شب جس سے کٹ گئی وہ سویرا تم ہی تو ہو
دل کی مراد آپ کی خوشنودئ مزاج
اور سالکؔ فقیر کے منشا تم ہی تو ہو