/ Thursday, 13 March,2025


جو ہم غریبوں کو ناحق ستائے جاتے ہیں





ہم ہی چلے جاتے ہیں

جو ہم غریبوں کو ناحق ستائے جاتے ہیں
خود اپنی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں
کچھ اس طرح سے خیالوں پہ چھائے جاتے ہیں
نظر سے دور ہیں دل میں سمائے جاتے ہیں
خدا کے واسطے کوئی انہیں بھی سمجھاتا
یہ چارہ ساز مری جان کھائے جاتے ہیں
خزاں بہار کے پردے میں آگئی سر پر
چمن میں غنچے مگر مسکرائے جاتے ہیں
یہ کس کے دل کو نشانہ بنایا جاتا ہے
یہ کس کے خون میں پیکاں بجھائے جاتے ہیں
یونہی بھڑکتا رہے گا جو شوقِ نظارہ
تو دل کے زخم ان آنکھو نمیں آئے جاتے ہیں
کبھی نہ ساتھ دیا دلفریب دنیا نے
ہوس شعار مگر تلملائے جاتے ہیں
یہ چارہ سازوں میں سرگوشیاں ہوئیں کیسی
یہ کیوں ملول سب اپنے پرائے جاتے ہیں
جو ہم نہ ہوں گے تو ہوگی نہ ہاؤ ہو یہ خلیؔل
ہمارے دم کی سب ہائے ہائے جاتے ہیں