جو ہم غریبوں کو ناحق ستائے جاتے ہیں
خود اپنی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں
کچھ اس طرح سے خیالوں پہ چھائے جاتے ہیں
نظر سے دور ہیں دل میں سمائے جاتے ہیں
خدا کے واسطے کوئی انہیں بھی سمجھاتا
یہ چارہ ساز مری جان کھائے جاتے ہیں
خزاں بہار کے پردے میں آگئی سر پر
چمن میں غنچے مگر مسکرائے جاتے ہیں
یہ کس کے دل کو نشانہ بنایا جاتا ہے
یہ کس کے خون میں پیکاں بجھائے جاتے ہیں
یونہی بھڑکتا رہے گا جو شوقِ نظارہ
تو دل کے زخم ان آنکھو نمیں آئے جاتے ہیں
کبھی نہ ساتھ دیا دلفریب دنیا نے
ہوس شعار مگر تلملائے جاتے ہیں
یہ چارہ سازوں میں سرگوشیاں ہوئیں کیسی
یہ کیوں ملول سب اپنے پرائے جاتے ہیں
جو ہم نہ ہوں گے تو ہوگی نہ ہاؤ ہو یہ خلیؔل
ہمارے دم کی سب ہائے ہائے جاتے ہیں