جو ان کے نقشِ قدم پر ہیں سرجھکائے ہوئے
وہی تو منزل مقصود کو ہیں پائے ہوئے
در نبی پہ جلاتے ہیں آرزو کے چراغ
بساطِ زیست پہ دنیا سے مات کھائے ہوئے
ہے ذرے ذرے میں اب تک حضور کو جلوہ
حقیقتیں میں ابھی تک نقاب اٹھائے ہوئے
پڑھو درود پڑھو ذوق وشوق کہتا ہے
کہ آج بزم میں سرکار بھی ہیں آئے ہوئے
سنا کہ مژدہ عطاؤں کا سر خرو کردو
گناہ گارہوں بیٹھا ہوں منہ چھپائے ہوئے
وہ خوش نصیب غمِ دو جہاں سے فارغ ہیں
جو ان کے لطف وکرم سے ہیں لو لگائے ہوئے
متاع دردِ محمد ہی مانگ لو رب سے
نظر اٹھاؤ ہیں بادل کرم کے چھائے ہوئے
ہمارے پاس کوئی اور چیز بھی تو نہیں
ہم اپنے اشک ہی پلکوں پہ ہیں سجائے ہوئے
ہے ان کی یاد سے آباد میرا دل خاؔلد
ہیں میرے دیدہ ودل دونوں جگمگائے ہوئے