ساقی نامہ
جو وجہ درد ہے ساقی وہی غمخوار ہے ساقی
اسی کا نام دنیا ہے یہی سنسار ہے ساقی
اگر انسان کا ذوق عمل بیدار ہے ساقی
تو پھر آسان سے آسان ہر دشوار ہے ساقی
یہ ہے تسلیم مجھ کو خار دل آزار ہے ساقی
مگر گل پر بھی بلبل کے لہو کا بار ہے ساقی
رخ پر نور پر یوں ابروئے خمدار ہے ساقی
کہ گویا درمیاں قرآن کے تلوار ہے ساقی
یہ مانا عشق کا آغاز آتش زار ہے ساقی
مگر انجام اس کا نازشِ گلزار ہے ساقی
اگر سوچو تو الفت ہے گل ترسے بھی نازک تر
اگر دیکھو تو وہ خوں ریزاک تلوار ہے ساقی
محبت تھی کبھی پیغام صلح و آشتی مانا
مگر اس دور میں تو باعث پیکار ہے ساقی
کہیں ٹھوکر نہ کھا جائے ہمارا کیف آگیں دل
بساط ذہن عالم سخت ناہموار ہے ساقی
اگر دیکھو تو دیوانوں کی آنکھیں بند پاؤ گے
اگر سوچو تو ہر اک طالب دیدار ہے ساقی
ادھر سے ارنی ارنی اور اُدھر سے لن ترانی ہے
کہیں اصرار ہے ساقی کہیں انکار ہے ساقی
لباس رہبری اب پردہ پوش جرم و عصیاں ہے
شبیہہ آب و دانہ جبہّ و دستار ہے ساقی
نہ کیوں ہو خوف کا مارا وہ تیغوں کی چھنا چھن سے
جسے مرغوب ترپازیب کی جھنکار ہے ساقی
مثل مشہور ہے دونوں ہتھیلی مل کے بجتی ہے
ادھر گر پیار ہے تو اس طرف بھی پیار ہے ساقی
کبھی یہ بھی زمانے کا مقدر بن کے چمکے گا
اگرچہ آج اخؔتر بیکس و ناچار ہے ساقی
زمانے کو سبق دیتا ہے وہ شعروں کی چلمن میں
ترا دیوانہ اخؔتر کس قدر ہشیار ہے ساقی
یہ اپنی اپنی قسمت اپنا اپنا ظرف ہے ورنہ
مقدر میں کہاں ہر مدعی کے دار ہے ساقی
ابھی تک ساغرمے تیرے اخؔتر تک نہیں پہونچا
مگر یہ رند تیرا بے پئے سرشار ہے ساقی
جہاں شمس و جمالِ ماہ پر نظریں نہیں رکتیں
مرے ذوق نظر کا دیکھ یہ معیار ہے ساقی
نگاہیں ڈھونڈتی ہیں خالد سیف الٰہی کو
کہ اب انسانیت پر پنجۂ ادبار ہے ساقی
زمانہ سے نمایاں آج ہے اندازِ کسرائی
کہاں پر ذوالفقار حیدر کرار ہے ساقی
اگر زندہ رہیں اور زندگی کا راز نہ سمجھیں
تو ایسی زندگی پر سیکڑوں پھٹکار ہے ساقی
اگر سوچو تو الفت بار عالم سے ہے چھٹکارا
اگر دیکھو تو وہ اک بوجھ ہے اک بار ہے ساقی
بھلا کیسے ہو پھر تیری مسیحائی کا اندازہ
مسیحائے زماں جب خود ترا بیمار ہے ساقی
زمانے نے بدل ڈالا ہے اب چال و چلن اپنا
مگر تیرے جوانوں کی وہی رفتار ہے ساقی
بھلا یہ کون گلشن میں بصد ناز و ادا آیا
نقاب الٹا پریشاں زلف عنبر بار ہے ساقی