/ Friday, 14 March,2025


جو وجہ درد ہے ساقی وہی غمخوار ہے ساقی





ساقی نامہ

جو وجہ درد ہے ساقی وہی غمخوار ہے ساقی
اسی کا نام دنیا ہے یہی سنسار ہے ساقی
اگر انسان کا ذوق عمل بیدار ہے ساقی
تو پھر آسان سے آسان ہر دشوار ہے ساقی
یہ ہے تسلیم مجھ کو خار دل آزار ہے ساقی
مگر گل پر بھی بلبل کے لہو کا بار ہے ساقی
رخ پر نور پر یوں ابروئے خمدار ہے ساقی
کہ گویا درمیاں قرآن کے تلوار ہے ساقی
یہ مانا عشق کا آغاز آتش زار ہے ساقی
مگر انجام اس کا نازشِ گلزار ہے ساقی
اگر سوچو تو الفت ہے گل ترسے بھی نازک تر
اگر دیکھو تو وہ خوں ریزاک تلوار ہے ساقی
محبت تھی کبھی پیغام صلح و آشتی مانا
مگر اس دور میں تو باعث پیکار ہے ساقی
کہیں ٹھوکر نہ کھا جائے ہمارا کیف آگیں دل
بساط ذہن عالم سخت ناہموار ہے ساقی
اگر دیکھو تو دیوانوں کی آنکھیں بند پاؤ گے
اگر سوچو تو ہر اک طالب دیدار ہے ساقی
ادھر سے ارنی ارنی اور اُدھر سے لن ترانی ہے
کہیں اصرار ہے ساقی کہیں انکار ہے ساقی
لباس رہبری اب پردہ پوش جرم و عصیاں ہے
شبیہہ آب و دانہ جبہّ و دستار ہے ساقی
نہ کیوں ہو خوف کا مارا وہ تیغوں کی چھنا چھن سے
جسے مرغوب ترپازیب کی جھنکار ہے ساقی
مثل مشہور ہے دونوں ہتھیلی مل کے بجتی ہے
ادھر گر پیار ہے تو اس طرف بھی پیار ہے ساقی
کبھی یہ بھی زمانے کا مقدر بن کے چمکے گا
اگرچہ آج اخؔتر بیکس و ناچار ہے ساقی
زمانے کو سبق دیتا ہے وہ شعروں کی چلمن میں
ترا دیوانہ اخؔتر کس قدر ہشیار ہے ساقی
یہ اپنی اپنی قسمت اپنا اپنا ظرف ہے ورنہ
مقدر میں کہاں ہر مدعی کے دار ہے ساقی
ابھی تک ساغرمے تیرے اخؔتر تک نہیں پہونچا
مگر یہ رند تیرا بے پئے سرشار ہے ساقی
جہاں شمس و جمالِ ماہ پر نظریں نہیں رکتیں
مرے ذوق نظر کا دیکھ یہ معیار ہے ساقی
نگاہیں ڈھونڈتی ہیں خالد سیف الٰہی کو
کہ اب انسانیت پر پنجۂ ادبار ہے ساقی
زمانہ سے نمایاں آج ہے اندازِ کسرائی
کہاں پر ذوالفقار حیدر کرار﷜ ہے ساقی
اگر زندہ رہیں اور زندگی کا راز نہ سمجھیں
تو ایسی زندگی پر سیکڑوں پھٹکار ہے ساقی
اگر سوچو تو الفت بار عالم سے ہے چھٹکارا
اگر دیکھو تو وہ اک بوجھ ہے اک بار ہے ساقی
بھلا کیسے ہو پھر تیری مسیحائی کا اندازہ
مسیحائے زماں جب خود ترا بیمار ہے ساقی
زمانے نے بدل ڈالا ہے اب چال و چلن اپنا
مگر تیرے جوانوں کی وہی رفتار ہے ساقی
بھلا یہ کون گلشن میں بصد ناز و ادا آیا
نقاب الٹا پریشاں زلف عنبر بار ہے ساقی