/ Friday, 14 March,2025


کب کوئی آرزو تھی کب کوئی آرزو کی





کب کوئی آرزو تھی کب کوئی آرزو کی
بس تیری جستجو تھی بس تیری جستجو کی
کیوں دیکھتی صبا ان پھولوں کی شوخیوں کو
لائی مہک اڑاکے گیسوئے مشکبو کی
الطاف بیکراں سے شہ مل گئی کچھ ایسی
بے اختیار تڑپی ہر موج آرزو کی
پورے شباب پر ہے فیضِ نگاہِ ساقی
اب خیریت نہیں ہے پیمانہ وسبو کی
بلبل کے ننھے دل میں طوفان سامچا ہے
جب بات میں نے ان سے پھولوں کے روبرو کی
وہ بے زبانیوں کو آخر سمجھ نہ پائے
توہین ہوگئ ہے خاموش گفتگو کی
دیکھا ہے چاندنی کو بھی انفعال آگیں
جب بات چھڑگئی ہے اُس میرے ماہرو کی