کب کوئی آرزو تھی کب کوئی آرزو کی
بس تیری جستجو تھی بس تیری جستجو کی
کیوں دیکھتی صبا ان پھولوں کی شوخیوں کو
لائی مہک اڑاکے گیسوئے مشکبو کی
الطاف بیکراں سے شہ مل گئی کچھ ایسی
بے اختیار تڑپی ہر موج آرزو کی
پورے شباب پر ہے فیضِ نگاہِ ساقی
اب خیریت نہیں ہے پیمانہ وسبو کی
بلبل کے ننھے دل میں طوفان سامچا ہے
جب بات میں نے ان سے پھولوں کے روبرو کی
وہ بے زبانیوں کو آخر سمجھ نہ پائے
توہین ہوگئ ہے خاموش گفتگو کی
دیکھا ہے چاندنی کو بھی انفعال آگیں
جب بات چھڑگئی ہے اُس میرے ماہرو کی