کبھی سر کو دھن رہا ہوں کبھی ہاتھ مل رہا ہوں
دل مضطرب بتا دے کہ میں کیوں مچل رہا ہوں
میں تمہیں پتا بتادوں جو تمہیں بھی یاد آئے
میں تمہیں زندگی کا کبھی ماحصل رہا ہوں
کبھی پھول بھی چنے تھے اسی زندگی کی خاطر
اسی زندگی کی خاطر میں انہیں مسل رہا ہوں
میں جو غم میں جل رہا تھا تو سکوں کی جستجو تھی
جو سکوں ذرا ملا ہے تو سکوں میں جل رہا ہوں
مجھے ان کے وار سہنے انہیں مجھ پہ وار کرنے
وہ اُدھر سنبھل رہے ہیں میں اِدھر سنبھل رہا ہوں
مری بے خودی نے بخشا وہ سرور زندگی کا
کہ میں موت کا سہارے تری راہ چل رہا ہوں
نہ مجھے خلیؔل شکوہ نہ کوئی گلہ کسی کا
کہ میں اپنی زندگی کا غم بے بدل رہا ہوں