کیا ہے یہ بھی اک احسان تجھ پر باغباں میں نے
چنا ہے تیرے گلشن کو برائے آشیاں میں نے
دل عشق آفریں سے ہے مقامِ حسن کی رفعت
کیا نظروں میں تجھ کو آسماں اے جانِ جاں میں نے
نگاہوں نے کیا ہے غالباً غمازی خاطر
دیارِ مہرباں میں بند کرلی تھی زباں میں نے
وفورِ رنج و غم میں مسکرانا ہے میرا شیوہ
جفائے یار سے پیدا کیا ربطِ نہاں میں نے
عجب طرفہ تماشہ ہے مزاج عاشقانہ بھی
کیا انگیز ہنستا کھیلتا جور بتاں میں نے
مجھے ڈر ہے کہ چشم پیر گردوں خوں نہ برسائے
کہیں اے ہم نفس چھیڑی جو اپنی داستاں میں نے
نہیں پازیچۂ طفلاں ہپ کارِ عشق بھی اخؔتر
یہاں دیکھے ہیں لٹتے حسرتوں کے کارواں میں نے